Wednesday, November 19, 2014

انسانی خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، اور سرمایہ دارانہ نظام

 دور حادضر میں، جہاں پر روز مرہ کے استعمال کی اشیاء  کا تعلق ہے، تو ہم مغرب سے متاثر ہوئے
-بغیر نہیں رہ سکتے

اقبال نے مسلم امہ کی اسی بے بسی کا رونا رویا ہے-

انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک چھتریاں،
رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
 آئیں گے غسّال کابل سے، کفن جاپان سے



ہمارے موبائیل سے لے کر گھریلو کراکری تک مغربی ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے- میں زیادہ بات نہیں لکھوں گا کیونکہ میرا موضوع مغرب کا اور بالخصوص یہودیوں کا سرمایہ دارانہ نظام ہے- اور کس طرح سے یہ نظام ہمارے خاندانی تصور کو مٹانے پر تلا ہوا ہے-

جس پر اقبال نے ایک صدی پہلے کہہ دیا تھا-

تاک میں بیٹھے ہیں مدّت سے یہودی سُود خوار !
جن کی روباہی کے آگے، ہیچ ہے زورِ پلنگ
خود بخود گرنے کو ہے پکّے ہوئے پھل کی طرح !
دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

سود خور یہودی جن کی مکاری کے آگے چیتے کا زور بھی نہیں چلتا مدت سے گھات لگائے بیٹھے تھے اور اب یورپ خود بخود ان کے پھندےمیں آنے والا ہے



دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ اور اسکے اتحادی فتح سے ہمکنار ہوئے، تو انکو اپنے اپنے جنگ سے تباہ شدہ ممالک کی تعمیر کی فکر ہوئی- شکست خوردہ جرمنی اور جاپان بھی اپنے زخم چاٹتے ہوئے اٹھے اور اپنی تعمیر نو میں جت گئے-

یہودی سرمایہ کار پھر متحرک ہوگئے- اب ان ایک ایسے نظام کی ضرورت پیش آئی جس پر تمام اقوام عالم عمل پیرا ہوں- اسی نظام نے آگے چل کر "نیو ورلڈ آڈر" کی بنیاد رکھی- 

تمام سرمایہ داروں اور دور حاضر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو انسانوں کی ایسی نئی فوج درکار تھی، جو جنگ لڑنے کی بجائے انکی تباہ حال صنعتوں کو بحال کرے- یہ الگ بات ہے کہ انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جنگوں میں بھی اپنا سرمایہ لگایا- (فریقین کو ہتھیار بیچ کر)

اس معاملے میں انکو اقوام عالم سے ایسے ذہین افراد درکار تھے جو، دنیا کے طول و عرض میں باآسانی جا سکتے ہوں-

ان ملازموں نے اپنے بیوی بچوں یا گرل فرینڈ سے دوری اختیار کرنے میں حیل و حجت سے کام لیا-

اس کا آسان حل بھی انھی سرمایہ کاروں نے ڈھونڈ نکالا----------

اپنے ایگزیکٹوز اور کاروبار کے بڑے دماغوں کی عیاشیوں میں اضافہ کر دیا گیا- دنیا کے جس کونے میں بھی یہ جاتے،شراب، عورت انکو فراہم کی جاتی- اس طریقے سے ان کو گھر کی کمی محسوس نہ ہونے دی جاتی-

کہتے ہیں بزنس اور قانون میں جذبات نہیں ہوتے- انسان اپنے ماحول کا اثر ضرور لیتا ہے- آہستہ آہستہ ان تمام لوگوں کے جذبات بھی بالکل ختم ہو گئے- 

بلکہ آج کل بھی 
کچھ مسلمان بھی اس لت کا شکار ہوگئے- اور یہ لعنت آج وطن عزیز میں بھی جاری ہے- 

آج دنیا کی 85 فیصد دولت پر یہودی سرمایا کا قابض ہیں-

خیر ایک چھوٹا سا واقع ذہن میں آتا ہے- عرض کرتا چلوں گا- میرے ایک دوست جو عمر میں کافی بڑے ہیں-
مجھ سے یہی گلہ کرتے نظر آئے- 

موصوف ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے CEO ہیں- اور ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں- میں ان کو صوفی صاحب کہتا ہوں- ہر چند برا ماننے کے بعد انھوں نے نام قبول فرما لیا- 

صوفی صاحب،کبھی کبھار فون کرکے بلا لیتے ہیں- ہوانا کا مہنگا ترین سگار سلگاتے ہیں اور میں اپنے کافی کپ کپساتھ انکے ورلڈ کلاس آفس کے نرم و گداز ترکی صوفے پر براجمان ہو جاتا ہوں-

ڈیڑھ گھنٹےکی اس نشست میں، ملکی و غیر ملکی سیاست سے لیکر سٹاک مارکیٹ اور پھر مختلف کولیگز پر تبصرے-

آخر میں کچھ انکے family matters اور پھر الوداع- 

ایک دن کہنے لگے، "یار اولاد نہ ہو تو ایک غم ہے- اور ہو تو ایک سو ایک غم-"

مجھے ایک دھچکا سا لگا- کیونکہ انکے دونوں بیٹے شادی شدہ اور well setteled ہیں- ایک لندن میں اپنی چارٹرڈ فرم کا مالک ہے- اور دوسرا ملک کا ایک کامیاب انجینئر-

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے- "اولاد سکون کیلئے مانگی جاتی ہے- پر آج کل کی نسل کے پاس ہمارے لیئے ٹائم ہی نہیں-" 

میں نے فورا جواب دیا- "صوفی صاحب آپ نے اپنی اولاد کو کتنا ٹائم دیا؟؟ آج آپ ریٹائر منٹ کے قریب ہیں- حال ہی میں آپ کی اس ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنے اس ملازم کو نوکری سے نکالا ہے- جس نے اپنی زندگی کے چالیس بہترین سال اس کمپنی کو دیئے- وہ شخص اپنی اولاد پر خاص توجہ نہ دے سکا- 25 سال پہلے بہنوں کے ہاتھ پیلے کیئے اور پھر بیٹیوں کی شادییاں کرنے کیلئے اور ٹائم لگاتا رہا-  اور نکالنے کی وجہ، اس شخص کے طبی اخراجات میں بے پناہ اضافہ بتایا جاتا ہے- آج وہ شخص جدہ کے ایک ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے- کبھی کمپنی نے جاکر اس سے پوچھا- کہ میاں کیسے ہو؟؟ آج اس کے بچوں کی تعلیم کے بارے میں کسی نے سوچا؟؟ صوفی صاحب گستاخی معاف، آپ کو اور اس کمپنی کو صرف کام چاہییے کام- انسان نہیں" 

صوفی صاحب حیران وپریشان میرا منہ دیکھ رہے تھے- یقینا میں ان کا ملازم ہوتا تو صرف ایک لفظ سنتا- you are fired!!

"تم اس کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتے ہو برخوردار؟؟ کوئی عزیز ہے تمہارا؟" صوفی صاحب نے ایک فلمی گاڈ فادر کی طرح اپنے سگار کا لمبا کش لیا اور مجھ پر سوال داغ دیا-


"جی ہاں، انسانیت کا رشتہ ہے صوفی صاحب!!" میں نے کلام جاری رکھا- "آج آپ کو اس بوڑھے اور کمزور انسان کے بدلے ایک طاقتور اور جوان انسان مل چکا ہے- جس کی تخواہ بھی اس سے آدھی ہے- اور وہ ہے بھی غیر شادی شدہ- اسطرح اس پر بیوی بچوں کا بوجھ بھی نہیں، ہے نا- اپنے دل پر باتھ رکھیں اور میری بات کا جواب دیں-"

"یار تمہیں تو CEO ہونا چاہیے- اتنی کم عمر میں اتنی دور اندیشی" صوفی صاحب نے تعریف کرکے موضوع بدلنا چاہا-

ویسے آجکل کے نوجوانوں کی اپنی جھوٹی تعریف سن کر بس ہو جاتی ہے-
پیسہ ان کی بڑی کمزوری ہوتا ہے-
جس کا فائدہ یہ کمپنیاں اٹھاتی ہیں-


"ایک دوست کی حثیت سے بات کر رہا ہوں جناب!!! i need my answer" میں نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا-

"lets have a meeting on starbucks my friend" صوفی صاحب نے جان چھڑائی-

میں نے فورا ہامی بھر لی- ہاتھ ملایا اور واپس آگیا-

میں نے دوبارہ کال نہیں کی- دو ہفتے بعد صوفی صاحب کا پھر فون آیا اور مجھے ایک شاندار ہوٹل میں بلایا-

یہ ان کی کمپنی کا کوئی فنکشن تھا- کچھ معروف شخصیات بھی مدعو تھیں- خیر ہم پہنچ گئے- 

"کیوں کیسا لگا دوست؟؟ مزہ آیا؟؟" صوفی صاحب نے پارٹی کے اختتام پر پوچھا-

"اچھا تھا" میں نے کہا- "and i am still waiting for my answer"

-"یار تم بہت difficult انسان ہو -"صوفی صاحب نے قہقہہ لگایا-

"difficult نہیں، بڑے لوگوں کے تجربات سے سیکھنے کا پیاسا ہوں-" میرے اس جواب پر انہوں نے مجھے غور سے دیکھا-

مہمانوں کے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا- مہمانوں کو رخصت کر کے بعد ہم لوگ ہوٹل کی بالائی منزل پر چلے گئے-

سامنے بحیرہ احمر نظر آ رہا تھا- اور جدہ  کورنیش کی رنگین روشنیوں نے شام کا منظر دوبالا کر دیا تھا-شیشہ اور قہوے کا اہتمام تھا- میں اور صوفی صاحب آرام سے کرسیوں پر بیٹھے، گیلری سے بحیرہ احمر کا نظارہ کر نے لگے-

صوفی صاحب نے سمندر کی طرف اشارہ کیا- "اس کو جانتے ہو؟؟ اس کا ہماری کمپنی مالکان سے بہت گہرا تعلق ہے-" 

"تعلق یہی ہوگا، کہ ہر امپورٹد مال، پورٹ سے آتا ہے- اس سے زیادہ امیر زادوں کا سمندر سے کیا واسطہ؟" میں نے ہاٹ چاکلیٹ کی ایک چسکی لیتے ہوئے جواب دیا-

شام کی سرد سمندری ہوا میں گرم مشروب ماحول کا لطف دوبالا کر رہا تھا- 

ہمیں اپنی بیگم کی یاد شدت سے ستا رہی تھی- وہ ساتھ ہوتی تو نظارہ اور بھی دوبالا ہوتا- کافی جوڑے چھت پر موجود تھے-کئ یورپی اور عرب جوڑے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے- اکا دکا ایشیائی بھی تھے-

لیکن آج ہم نے  بھی صوفی صاحب سے کچھ علم حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی- لہذا کچھ پانے کیلیئے کچھ کھونا پڑتا ہے، اس اصول پر عمل پیرا ہو کے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے-

"بات امپورٹ یا ایکسپورٹ کی نہیں عمر صاحب" صوفی صاحب گویا ہوئے-

"بات ایک کنگلے غریب انسان کی ہے- جس کے پاس بحری جہاز کا کرایہ تک نہ تھا- وہ  1945 میں مصر کی بندرگاہ سے چھپتا چھپاتا یمن کے بحری جہاز میں سوار ہوا- راستے میں چیکنگ کے دوران ٹکٹ نہ ہونے کیوجہ سے پکڑا گیا- خوف کے مارے نوجوان نے جہاز کے عملے سے اپنا آپ چھڑا کر، بحر احمر کے گہرے پانیوں میں چھلانگ لگا دی-" 

سگار اور کافی کے ملے جلے Aroma نے ایک پرفیکٹ ماحول بنایا ہوا تھا-

"اوہ مائی گاڈ اتنا بڑا risk اور وہ بھی----------" میں خاموش نہ رہ سکا-

"میاں risk تو لینا پڑتا ہے نا" صوفی صاحب نے کلام جاری رکھا- "تم کسی بھی سرمایہ دار کی زندگی اٹھا کر دیکھ لو- تقریبا سب نے رسک لیا-" 

"اب اس کنگلے گنوار کی مثال ہی لے لو، کس طرح سمندر میں کودا، کتنے دن بھوکا پیاسا رہا- اور کسطرح اللہ نے اسکو بچایا اور ساحلی ماہی گیروں نے اسکے بے ہوش جسم کو لاش سمجھا، جو گہرے پانیوں میں تیر رہی تھی- فورا اسکو جال سے پکڑا اور ساحل تک پہنچایا-
جب اس کنگلے کو ہوش آیا تو سمجھا کہ یمن آگیا ہے- مگر یہ حجاز تھا- خیر اس نے ماہی گیروں کی ملازمت اختیار کر لی-
وقت گزرتا رہا- وہ اپنی محنت سے کام میں لگا رہا- پھر اس نے اپنی کشتی بنائی اور یہی کشتی ایک سے دو، دو سے چار ہوتی چلیں گئیں-
1960 میں اسکو سعودی عرب کی شہریت مل گئی- بس پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا- آج اتنی دولت ہے کہ اسکی سات نسلیں آرام سے بیٹھ کر کھا سکتیں ہیں-"

"اتنی اوپر کیسے پہنچا؟؟" میں نے سوال رکھ دیا-

"ان دنوں پٹرول دریافت ہو چکا تھا- کچھ سرمایہ کار درکار تھے- پس اس نے زندگی کا دوسرا بڑا رسک لیا اور پٹرول میں سرمایہ کاری کی- اللہ کا اس پر کرم ہوا اور یہ کمپنیوں پر کمپنیاں کھولتا چلا گیا -  مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں اسکے جوتے پالش کرتی نظر آنے لگیں-  بڑا خدا ترس انسان تھا-"

"اسکے بعد اسکی اولاد نے کاروبار سنبھالا، وہ مغربی طرز کے رکھ رکھاؤ سے زیادہ متاثر ہیں- شاید اسی لیئے بڑے پیمانے پر پرانے لوگوں کو فارغ کیا جانے لگا- کیونکہ پرانے ملازمین ان کے والد کے خاص بندے تھے اور اچھی خاصی تخواہ لے رہے تھے-"

"اب میں تمہارے اس انسانیت والے سوال کی طرف آتا ہوں جس پر تم مچلے جا رہے تھے-"

میں حیران رہ گیا- کہ میری یہ بات صوفی صاحب کو اسقدر یاد رہ گئ ہے-

"غور سے سنو میری بات- اپنی کرسی بچانے کیلئے کافی کچھ کھیلنا پڑتا ہے-
وہ شخص میری کرسی کا دشمن ہو گیا تھا-
کہنے کو ایک معمولی سا سیکریٹری تھا- پرانا گھاگھ تھا-
اسکے تمام طبی اخراجات اب بھی ہم لوگ ہی اٹھا رہے ہیں- اور اس کی جگہ ہمیں ایک نوجوان مل گیا ہے- جو اس سے آدھی سے بھی کم تنخواہ پر کام کر رہا ہے- اور خوش ہے-"

"صوفی صاحب آپ واقعی ایک گاڈ فادر ہیں- جو اپنے گینگ کے با اعتماد ترین ساتھی کو بھی مارنے سے نہیں چوکتا-" ہم
نے مسکرا کر کہا-

میرا اندر کانپ رہا تھا، کہ صوفی صاحب بظاہر میکائیل اور اندر سے عزازئیل ہیں-


"یاد رکھو برخوردار، چھوٹا آدمی چھوٹا آدمی ہوتا ہے-
حضرت علیؑ باب العلم تھے- انؑ کا فرمان ہے-

جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو-

اس شخص پر میرے بے پناہ احسانات ہیں- ابھی بھی اس کا علاج میری اپیل پر جاری ہے-میں اب بھی ہر ہفتے جاتا ہوں اور اسکو کچھ رقم دے کر آتا ہوں- اسکے ایک بچے کی تعلیم کی ذمہ داری میری ہے- لیکن میں اس کو واپس بحال کبھی نہیں کروں گا- کیونکہ وہ میرے تمام رازوں سے واقف ہے-"

مزید فرمانے لگے-" ابھی حال ہی میں ہم نے کچھ مینجرز کو فارغ کیا ہے- سب شادی شدہ تھے- میرے دست و بازو تھے- یہ فیصلہ میرے یورپ کے دورے میں کیا گیا تھا-
اس کمپنی کے سرمایا دار یورپی ہیں-  بورڈ آف ڈائیرکٹرز کی میٹنگ میں ان کا کہنا ہے کہ آپ نوجوانوں آگے آنے کا موقعہ دیں-
کوشش کریں سب غیر شادی شدہ ہوں اور نماز کے پابند نہ ہوں- سال چھ مہینے بعد ان کی انٹرٹینمنٹ کے ہم ذمہ دار ہیں- وہ جو کہیں گے کمپنی ان کو دے گی-

ہمیں بس ان سے  کام چاہیے-اور شادی کے معاملے میں ان کی حوصلہ شکنی کریں- کیونکہ ایک شادی شدہ مرد کام کو اتنا وقت نہیں دے پاتا-"

"اب  ہم کیا کریں یار؟؟ ہماری بھی مجبوریاں ہیں، جو ہر کس و ناکس کو نہیں بتائی جاسکتیں-"

"یہ تو کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے سر جی-" شادی کرنا ہر صاحب حثیت کا حق ہے- میں نے پرجوش لہجے میں کہا- "عبادت کرنا بھی ہر انسان کا حق ہے-"

"تو ہم کب روکتے ہیں نماز پڑہنے سے یا شادی کرنے سے- ملازمین شادیاں کرتے ہیں- اگر ہم دیکھیں کہ وہ پہلے والی یکسوئی کام کو نہیں دے پا رہا تو خوش اسلوبی کے ساتھ اسکو فارغ کر دیتے ہیں-"

صوفی صاحب کے لہجے میں سردی تھی- "اور رہی بات انسانی حقوق کی تنظیموں کی، تو یہ انھی سرمایہ داروں کے چندے پر پلتی بڑھتیں ہیں- لہذا ان معاملوں پر اکثر خاموش ہی رہتی ہیں-" 

"حکومتیں انھی سرمایہ کاروں کی مرہون منت ہوتی ہیں- ملکی معاشی پالیساں یہی لوگ بناتے ہیں- جس کو چاہا اور جب چاہا خرید لیا- پوری دنیا کو اپنی جیب میں لے گھومتے ہیں یہ لوگ- بلکہ دنیا بھر کے سیاست دانوں کی انتحابی مہموں میں یہی لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں-"

"اور انجام؟؟ کیا انجام ہوتا ہے ان لوگوں کا؟؟؟" میں نے پوچھا-

"تنہائی، آخری عمر میں یہ لوگ تنہائی کے عذاب سے دو چار ہو جاتے ہیں-
یہ لوگ دولت کی فراوانی میں مرتے ہیں-
انکے پاس دنیا کی ہر نعمت اور آسائش ہوتی ہے-
لیکن آخری وقت میں ان کے پاس سوائے انکے کتے بلے، ایک پرسنل ڈاکٹر ، ایک وکیل اور ایک نرس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا-
انکے پیارے بیٹے بیٹیاں بہت busy ہوتے ہیں- اور جانتے ہیں کہ ڈاکٹرز اور نرسز ڈیڈ کی اچھی take-care کر رہے ہیں"

اسی اثنا میں صوفی صاحب کا بلیک بیری چیخ اٹھا- بات کر کے کہنے لگے-

"یار بہت تھکا دیا ہے تم نے آج-

 پھر starbucks پر کافی کب پلا رہے ہو؟؟؟"

"انشااللہ ضرور!! آپ اس دن نے اولاد اور غم کی بات بھی ادھوری چھوڑ دی- وہ کیا معاملہ ہے-" میں نے پھر سوال داغ دیا-

موسم میں مزید ٹھنڈک کا اضافہ ہو چکا تھا- ہم لوگ واپس کار پارکنگ کی طرف بڑھنے لگے-

صوفی صاحب فرمانے لگے- "جس طرح ایک انڈر ورلڈ کا gangster اپنے کام سے توبہ کرکے اچھائی کی طرف جانا چاہے تو اسکے اپنے ساتھی اسکے لیئے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں-

اب یا تو وہ جان سے جاتا ہے- یا واپس اپنے کالے کرتوت جاری رکھتا ہے-

یہی حال ہمارا ہے- ہم بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں اتنا بری طرح پھنس گئے ہیں- کہ نکلنا بہت مشکل ہے-

میں نے اپنی جوانی کا بہترین وقت اس کمپنی کو دیا- میری عمر کے تمام لوگ نکالے جا چکے ہیں- میں چونکہ ceo ہوں اور گوروں کا منظور نظر ہوں- اس لیئے آج تک چلا آرہا ہوں-

میں نے اولاد کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوائی- لیکن آج میں اور میری بیگم پھر اکیلے ہیں-

کیا سرمایہ دارانہ نظام یہی سکھاتا ہے کہ اپنے بیوی بچوں سے دور رہو- 24 گھنٹے بس اپنے بزنس کا بھوت سوار رکھو- 40 یا 45 سال اس نظام کی خدمت کرو-

اور آخر میں ایک letter آپ کی قسمت بنتا ہے- کہ آپ کی خدمات کا بہت بہت شکریہ-

پھر نیا سورج اور نئے چمچے نئی تقرریاں اور نئے تبادلے-

کیونکہ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے-

آج میرے بچے بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہیں- دکھ اس بات کا ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود میں ساری عمر مغربی نظام سے متاثر رہا ، اور اپنے بچوں کو بھی یہی تربیت دیتا رہا-

آج اپنی بوئی  ہوئی فصل کاٹ رہا ہوں-

یہ جانے بغیر کہ یہ بس ظاہری چکا چوند ہے- آج آپ ہیں کل دوسرا آپ کی کرسی پر بیٹھے گا- 

یہ دولت اور کرسی کسی کی وفادار نہیں- دنیا آپ کو نہیں آپ کی کرسی اور دولت کو سلام کرتی ہے--" 

میں نے صوفی صاحب سے مصافحہ کیا- انکا ڈرائیور انکی ذاتی مرسڈیز میں بیٹھا ان کی راہ دیکھ رہا تھا-

جاتے جاتے کہنے لگے-میں چونکہ ایک غریب باپ کا بیٹا تھا- ہمیشہ یہی سجھا کہ امیری میں بہت سکون ہے- اب اللہ کا دیا سب ہے تو ایک ہی گیت لبوں پے آتا ہے
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی-

ان کی رندھی ہوئی آواز میں اتنا درد تھا کہ میرا وہاں کھڑا رہنا مشکل ہوگیا- 

اللہ حافظ کہہ کر جلدی سے صوفی صاحب کی نظروں سے اوجھل ہو گیا-


میں بوجھل قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا- آنکھیں نم تھیں- یقینا صوفی صاحب بھی اپنی مرسڈیز میں بیٹھے رو رہے ہونگے- کیونکہ اس سے پہلے کہ ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹتا میں نے فورا انکو اللہ حافظ کہہ دیا تھا-

میں سارا راستہ یہی سوچتا رہا-

کمپنی کے بڑے عہدے داران کے پاس اپنی ہی فیملیز کیلئے ٹائم نہیں- رہی بات عبادت کی تو وہ کس چڑیا کا نام ہے؟؟
پھر بڑھاپے میں یہی حضرات گلہ کر تے ہیں- "ہم نے جو بنایا اپنی اولاد کیلئے بنایا-"
اور اولاد کہتی ہے- "ابا جی!! آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟؟" 

ظاہر ہے جب انسان نے اپنی اولاد کو جوانی میں وہ وقت نہ دیا، جس کی وہ طلبگار تھی- تو پڑھاپے میں گلہ کیسا- پھر
بابا جی اسلامی حوالے ڈھونڈتے ہیں- کہ اسلام والدین کی خدمت کا درس دیتا ہے- 
اپنی لائین حذف کر جاتے ہیں- کہ اسلام بیوی بچوں کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے-

کہنے کو صوفی صاحب تہجد گزار ہیں- لیکن کس طرح سے مغرب کے سفاک سرمایہ دارانہ نظام پر عمل پیرا ہیں-

بہرحال ایسی اولادوں سے میری یہی التماس ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے گھن چکر میں پھنسنے کی بجائے وہ اپنے والدین اور بیوی بچوں کو پورا ٹائم دیا کریں- 

گورے اس راز کو سمجھ چکے ہیں- مگر ہم نہیں سمجھے-

اور اب ان ملٹی نیشنل کمپنیز کا ٹارگٹ تیسری دنیا کے ذہین اور غریب نوجوان ہیں-

اچھی جاب آفر ضرور قبول کریں-
اپنی ذمہ داریاں نبھائیں-
لیکن ان کے رنگ میں نہ رنگ جائیں-

جیسے social ہونے کیلئے ہمارے اکثر نوجوان شراب کی چسکی لگا جاتے ہیں یا پھر بیرون ملک ڈانس پارٹیوں میں جوش و خروش سے شامل ہوتے ہیں ،اور وغیرہ وغیرہ-

کہ کونسا کوئی دیکھ رہا ہے- 

بھائی اللہ تو دیکھ رہا ہے نا- :)

ان پھندوں سے ہوشیار رہیں- اور اپنے آپ کو ٹوٹنے سے بچائیں-

                                                                      GOOD LUCK :)

"عمر اقبال"

No comments:

Post a Comment