Wednesday, November 19, 2014

سرمایہ دارانہ نظام - 2

احباب کو یاد ہوگا کہ میری سرمایہ دارنہ نظام-1 کی تحریر کے بعد آپ سب سے جو حوصلہ افزائی ملی- اس کیلئے میں آپ سب کی تعریف و تنقید، دونوں کا ممنون ہوں-

اس تحریر کو ذاتی مصروفیات کی بنا پر کچھ تاخیر ہوگئی- جس پر ناچیز معذرت خواہ ہے-

تو لیجئے جناب ایک اور تحریر پیش خدمت ہے-


سرمایہ دارانہ نظام-2  تحریر عمر اقبال

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


احمر (رڈ سی) اور خلیج فارس(پرشین گلف) میں ایک چیز مشترک ہے-
خاکی رنگ کی صحرائی ریت-
اس کو وہی انسان محسوس کرسکتا ہے، جس نے ساحل سمندر پر، ساحل کا ماتھا چومتی سمندری لہروں میں کھڑے ہوکر، اس خاکی رنگ کی دانے دار ریت کو اپنے

پیروں سے سرکتا ہوا محسوس کیا ہو۔
جب شدید دھوپ میں سمندر کا ٹھنڈا پانی آپ کے پیروں کو چھوتا ہے- تو پیروں تلے سرکتی ریت ایک عجیب سی گدگدی کرتی ہے، جو دل سے ہوتی ہوئی دماغ تک کو تروتازہ بنا دیتی ہے-

ہم لوگ کسی پارٹی پر نہیں آئے تھے- مشہور ملٹٰی نیشنل کمپنی اوریکل کے دو روزہ سیمنار میں مدعو تھے-
دوپہر کے کھانے کا وقفہ تھا- ہوٹل "پارک حیات" سمندر کے کنارے پر ایک مشہور فائیو سٹار ہوٹل ہے- جس کا ایک وسیع حصہ کھلے سمندر کو لگتا ہے-
یوسف ہم سب سے الگ تھلگ سمندر کے قریب کھڑا تھا اور تپتی دھوپ میں کچھ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا-

جب اس کے قریب پہنچا تو وہ اپنے آپ سے کچھ یوں کہہ رہا تھا: -  

شاید تمہیں وہ سہانی شام یاد ہو- جب ہم نے اپنی شادی کی پہلی پکنک اس طرح انجوائے کی تھی-
میرے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ تھا-

وہ لہروں کا ہمارے پیروں کو چھونا، جیسے ہماری موجودگی کے احساس میں ہمیں سمندر بھی خوش آمدید کہہ رہا ہو-
وہ نارنجی رنگ کا، سمندر میں ڈوبتا سورج، مسکرا رہا تھا-

یاد ہے جب سمندر کی ایک مچلتی ہوئی لہر نے، ریت کو زیادہ سرکایا تھا، تو تمھارے ہاتھ کی گرفت، میرے ہاتھ میں مزید بڑھ گئی تھی-
یہ چلنا کچھ لمحوں کا تھا- لیکن دو دلوں میں اس حسین لمحے کی چاشنی اب بھی باقی ہے-

آج ہم ایک دوسرے سے دور ہیں،دولت و حشمت کی ریتی پر تیز ہوئی، انا و جاہ کی آبدار چھری، اس نوخیز پودے کو کاٹنے کیلئے بے تاب ہے-
باغبان کی رضا کے برخلاف، اس کے بندے اس نخل صغیر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں-

یہ جانے بغیر کہ باغبان کی رضا پراس گلستان کا ہر پودا لگتا اور مرجھاتا ہے- کبھی کاٹا نہیں جاتا-"

ایکسکیوز می رانجھا صاحب!! میں نے گلا کھنکھارتےہوئے مداخلت کی، اتنی سنجید گی اس قدر غیر سنجیدہ انسان پر؟

"یار عمر!! تم مجھے فی الحال اکیلا چھوڑ دو" اسکو شاید میرا آنا برا لگا تھا-

"اوکے-" میں واپس مڑا- اور کھانے کی میزوں پر چل دیا-

دھیان پھر بھی اسی کی طرف تھا-
ہم دونوں نے ایک ساتھ عملی دنیا میں قدم رکھا تھا اور اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا-
ہم عمر ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی تھے-
آج یوسف کو اداس دیکھ کر میں چار سال پیچھے چلا گیا، جب اس پر ایک عرب دوشیزہ کے عشق کا بھوت سوار تھا- اور وہ اس کے باس کی انتہائی لاڈلی بیٹٰی تھی-

ہر چند میرے اور دیگر دوستوں بشمول صوفی صاحب کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد کا پکا رہا-
جب اسکے باپ کو اس بات کا معلوم ہوا تو اس نے فورا یوسف کو نوکری سے نکال دیا-
اور یہ کہا- "ہم عرب ہیں، ہمارے قبیلوں کی اپنی روایات ہیں، یہ دو ٹکے کا پاکستانی میری بیٹٰی کو کیا خوش رکھے گا؟"

اس کی بیٹی جب پتا چلا کہ یوسف کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے تو اس نے اپنے باپ کو خود کشی کی دھمکی دے دی-
باپ نے اسکو خوب مارا پیٹا، گھر پر بند رکھا، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی-

بقول شاعر:
 دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی-

آخرکار مجبور ہوکر جبران صاحب(یوسف کا باس) کو ہتھیار ڈالنے پڑے-
جبران نے شرط رکھی کہ یوسف اسکی بیٹی کو پاکستان نہیں لے کر جائے گا-

یوسف نے یہ شرط قبول کر لی-
شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی اور یوسف کے گھر والے کراچی سے جدہ آنے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے-
یوسف کو وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ مل گیا- اور قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی-

بقول اقبال: 
     تھا جو نا خوب، بتدریج وہی خوب ہوا-
                                                                       
مجھے ذاتی طور پر جس قدر یوسف کی نوکری بحال ہونے اور ترقی ملنے کی خوشی تھی، جبران سے شدید نفرت ہوگئی تھی- اور اس کی وجہ اس شخص کی ذاتی انا اور نسلی تعصبیت، جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ ابھی بھی دیگر افراد کی طرح عربی اور عجمی کے بھنور میں پھنسا ہوا تھا-

ہمارے نبی  نے 1435سال پہلے جو اسلامی مساوات کی تعلیم دی تھی، اس کی مثال آجکل کے دور والے عربوں میں کم ہی ملتی ہے-اکثر قبائل کے لوگ اب بھی دوسرے قبائل کے لوگوں کو کمتر اور برتر سمجھتے ہیں-

غیر ملکیوں کو بالخصوص جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے غریب ممالک کے باسیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا یے- اور انکی تیسری نسلوں تک کو جو  30-40 سال سے یہاں آباد ہیں، خارجی(باہر والے) کہہ کر پکارا جاتا ہے-

اس کے برعکس مغربی ممالک کے تمام شہریوں کو بہت باعزت اور اچھا تصور کیا جاتا ہے-

جبران نے مجھے اپنے آفس بلایا، مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی- میں جانتا تھا کہ یہ شخص کوئی چال ضرور چلے گا، جس سے یوسف بے خبر تھا-

اور وہی ہوا- جبران نے مجھے خریدنے کی کوشش کی- اگر میں اس شادی کو رکوانے میں اس سے ہاتھ ملا لوں- جس سے میں نے صاف انکار کر دیا-
اور میرے اندر کے محب وطن پاکستانی نے اپنے دل کی خوب بھڑاس بھی نکالی-

میں جبران سے مخاطب ہوا:
"مسٹر جبران میں تمام احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ، آج سے دو سو سال کے لگ بھگ پہلے کی بات ہے، جب ہندوستان انھی فرنگیوں، فرانسیسیوں،پرتگالیوں اور دیگر یورپی اقوام کیلئے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا تھا-

ہندوستانی نواب جب حج پر آتے تھے تو عربوں کی مالی اعانت کرتے تھے- جس کا عربوں کے سرداروں بشمول مکہ کے شریف کو شدت سے انتظار ہوتا تھا-

 حاجیوں کو لوٹنے کیلئے صحرائی قزاق موت بن کر قافلوں پر حملہ آور ہوتے تھے اور آن کی آن میں حاجیوں کا سب مال اسباب لوٹ لیتے تھے- حاجیوں کے احرام تک اتروا کر ان کی تلاشی لی جاتی تھی-  یہ ہے تمہاری تاریخ مسٹر جبران-"

جبران کی آنکھیں غصے سےلال سرخ تھیں- مگر وہ خاموش تھا-

"اور جب 1400 سال پہلے سرور کائنات  اس دنیا میں تشریف لائے، اور نہایت قلیل مدت میں تم لوگوں کو حلقۃ اسلام میں داخل فرمایا- کیا تم  عرب لوگ ہمارے پیارے نبی  کے خطبۃ حجتہ الوداع  پر اب بھی عمل پیرا ہو؟؟"
" میرا اس گفتگو کا مقصد اپنے آباؤ اجداد کا تم لوگوں پر احسان یاد دلانا نہیں، بلکہ آئینہ دکھانا ہے- "

"تھینک یو ویری مچ فار یور ٹائم" جبران نے میری بات کاٹ دی- اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں بار بار نمودار ہو رہی تھیں، جن کو وہ بار بار ٹشو سے صاف کر رہا تھا-
اور میں نے اسکے فائیو سٹار نما آفس سے باہر قدم رکھ دیا-

اپنے رب کا شکر ادا کیا، کہ آج اس مغرور شخص کو ایک دو ٹکے کے پاکستانی نے اس کی اوقات یاد دلا دی-

سرمایہ دار لوگوں کی یہ خاصیت ہوتی ہے، کہ وہ پیار، پیسہ، اچھی نوکری، دھونس اور دھمکی جیسی سوغاتوں سے اپنی بات منوانا جانتے ہیں-

اور یوسف کے ساتھ بھی یہی ہوا- یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی-
اور نازونعم میں پلی ہوئی لڑکی کی خواہشات کو زیادہ دیرنبھانا مشکل ہو گیا-

جس موقع کا جبران نے پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی بیٹی کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا، کہ اسکا فیصلہ ایک ضدی بچے کی ضد سے بڑھ کر اور کچھ نہیں تھا-

جبران کے زر خرید بندوں نے بھی یوسف کو قائل کیا، کہ "یہ تمہارا کلچر نہیں ہے- بہتر ہے جان چھڑاؤ-"

سیانے کہتے ہیں کہ "سرمایہ دار کی آنکھ میں سؤر کا بال ہوتا ہے-"
وہ ہر رشتہ ناطہ اور سودے کا لین دین، اگلی پارٹی کے مالی حالات پرکھ کر کرتا ہے-
 حتی کہ نشے کی حالت میں بھی اپنا ہر سودا  اور اپنی ہر ڈیل ٹھونک بجا کر کرتا ہے-

وہ جب داؤ لگاتا ہے تو کسی فائدے پر لگاتا ہے، اور جب دانستہ معصوم بن کر داؤ لگواتا ہے، تو اس عارضی خسارے کے پیچھے بھی کوئی بہت بڑا فائدہ یا شکار دیکھ کر احمق بنتا ہے-  

مجھے جبران اور صیہونی(یہودی) سرمایہ کاروں میں ذرہ برابر فرق نہیں لگا-اپنے مقصد کیلئے وہ پورے پورے ملکوں کو کس طرح ملیا میٹ کرنے میں مصروف ہیں-پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جس طرح اسلحہ بنا بنا کر یورپی قوموں کو بیچا گیا اور جنگوں کے اختتام پر وہی کمپنیاں نام بدل کر انہی ممالک کی تعمیر نو میں میں جت گئیں- گویا دونوں طرف سے پیسہ بنایا-پہلے اسلحہ بنا بنا کر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتروایا- پھر بچے کھچے انسانوں کے علاج معالجے، تعمیرات، اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے اپنا گڈ ول گیسچرز دئیے- جیسے ان سے عظیم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو انسانیت کی بھلائی نہ چاہے-

دوسری جنگ عظیم کے بعد ان اسلحہ ساز کمپنیوں کا رخ نو آزاد ریاستوں کی طرف ہوا- جن کے بڑے گاہکوں میں ہم اور ہمارا پڑوسی بھارت بھی شامل ہے-

اسی طرح خلیج کی جنگ میں دوسری جنگ عظیم کا کاٹھ کباڑ خلیجی ریاستوں کو دگنے چگنے داموں فروخت کر دیا گیا-

فی زمانہ ان کا سب سے بڑا ہتھیار میڈیا ہے- 

اب مغرب کی مثال ہی لیجئے، کس طرح دھڑا دھڑ میڈیا کے اور دیگر پاکستانی لوگ خریدے جارہے ہیں- جو نا صرف حکومتوں کو جتواتے ہیں- بلکہ حکومتیں ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتی ہیں، اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان بکاؤ افراد کے اشاروں پر ناچتی نظر آتیں ہیں-

ان بکاؤ افراد کے تانے بانے صیہونی سرمایہ کاروں سے جا ملتے ہیں- جنھوں نے بنکوں کے نام پر پوری دنیا کو سود کی لپیٹ میں لے رکھا ہے-اور امریکہ کے صدر تک ان کی مرضی کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے- کیونکہ وہ ابراہم لنکن اور جان ایف کینڈی جیسا انجام نہیں چاہتے-

پہلی مثال امریکی صدر ابراہام لنکن ہیں جنہوں نے روتھ شائلڈ بیکنگ نظام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور ” پر اسرار قاتل“ کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔جس وقت امریکی صدر میکنلے نے امریکہ اسپین جنگ کا ٹھیکہ صہیونی بینکروں کو دینے سے انکار کیا اور امریکہ میں پرائیوٹ صہیونی بینک” فیڈرل ریزرو“ کے قیام کی مخالفت کی تو اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔

جس وقت جان ایف کینیڈی نے صہیونی بینک فیڈرل ریزرو بینک کی پول یہ کہہ کر کھولی کہ اس نجی بینک نے حکومت کو قرضہ دے کر گئی گنا اور کئی مرتبہ سود حاصل کیا ہے اس نجی صیہونی بینک کی امریکہ میں اجارہ داری ختم کرنے کے لئے کانگریس میں بل پاس کروایا تو اسے تمام دنیا کے سامنے قتل کر دیا گیا-

یہ بل آج بھی پاس ہے اور ” کینیڈی ڈالر“ کے نام سے موسوم ہے لیکن کسی بعد میں امریکی صدر میں اسکونافذ کرنے کی ہمت نہ رہی۔ جس وقت امریکہ صدر رونالڈر یگن نے سرد جنگ کے بدل کے طور پر مشرق و سطی میں دہشت گردی کو ہوا دینے سے انکار کیا تو اسلحے کی فروخت سے متعدد بار کئی ٹریلین ڈالر منافع کمانے والے بینکروں نے ان پر قاتلانہ حملہ کروایا جس میں وہ بال بال بچے۔ 

عراقی صدر صدام حسین نے اپنے ملک میں کئی بار انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں لیکن جس وقت صدام نے ڈالر کی بجائے یورو میں اپنا تیل فروخت کرنے کا اعلان کیا تو انھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بنیاد بنا کر صدام اور عراق کو تباہ کر دیا گیا۔ 

جس وقت لیبیا کے معمرقذافی نے صیہونی بینکر کا یہ مطالبہ مسترد کر کہ وہ افریقین یونین بنانے سے باز آجائے اور سنیٹرل افریقن بینک کے قیام کا منصوبہ ترک کر دے اور اپنے تیل کی قیمت کے طور پر سونا طلب کرنے سے رک جائے تو اسی قذافی کی ” انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں “ کا الزام لگا کر اسی کے عوام کے ہاتھوں مروا دیا گیا۔

کہتے ہیں اگر قزافی مزید پانچ سال حکومت میں رہ جاتا تو اس وقت لیبیا میں کاغذی نوٹوں کی بجائے سونے چاندی کے درہم اور دینار کی کرنسی چلتی- جو کے اصل مالیت ہے-یہ وہ قذافی تھاجو لیبیا میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو نیا مکان دیتا تھا۔ یہاں تیل اور گیس کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی(پٹرول چودہ سینٹ پر گیلن)۔ لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ بھی نہیں تھا تعلیم اورطبی سہولتیں مفت تھیں۔اس قدر معاشی استحکام صہیونی روتھ شائلڈ اور راکفلر بینکرز کو پسند نہیں تھا اور افریقن سینٹرل بینک ان کی براعظم میں کمر توڑ سکتا تھا۔۔۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔۔۔ لیبیا ایک انتہائی منافع بخش خطہ ہونے کے باوجود صیہونی بینکرز کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ عاقبت نا اندیش” مجاہدین“ نے صیہونی بینکرز کے ہاتھ مضبوط کر دیئے۔۔۔۔۔یہی کام پاکستان میں پاک فوج کے خلاف کیا گیا ہے اور طالبان کے نام سے ایسے گروہ تشکیل دیئے گئے جنہوں نے پاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔اور بھولے بھالے مسلمان اس 'جہاد' میں گمراہ ہورہے ہیں-

یہ بھائی کو بھائی سے لڑوانے انتہائی خوفناک منصوبہ ہے کیونکہ پاکستان نے مستقبل قریب میں جو عالمی حالات رونما ہونے والے ہیں ان میں اہم کردارادا کرنا ہے اور یہاں پاکستان سے مراد پاک فوج ہے جو مسلم دنیا کی جانب سے سب سے زیادہ ررعمل دے گئی۔ اس ردعمل کو قبل از وقت ہی کمزور کر نے کے لئے نائن الیون کے بعد مشرف سے ایسے اقدامات کرائے گئے جس سے قبائلی علاقوں میں رد عمل کی تحریک پیدا ہو گئی-پھر ان دجالی صیہونی قوتوں نے افغانستان میں بیٹھ کر یہاں ایسی گروں بندیاں کیں جنہیوں نے انتقام کے نام پر پاک فوج پر حملے شروع کئے اور پاکستان کی عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر کے درحقیقت وہ اسلام مخالف قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں-

یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ایک بھی پاکستانی فوجی کا نقصان درحقیقت پاکستان اور عالم اسلام کا نقصان ہے جو جو اس قسم کی کاررائیوں میں ملوث ہیں، وہ لیبیا کے حالات سے سبق سیکھ لیں۔ جن ” مجاہدین“ نے قذافی کی حکومت کے خلاف” علم جہاد “ بلند کیا تھا وہ مجاہدین اب کہاں ہیں؟ کیا انہیں مجاہدین کہ جا سکتا ہے جن کی مدد نیٹو کرے؟ اب لیبیا کے تیل اور معاشیات پر صہیونی بینکروں کا قبضہ ہے اور جغرافیہ پر نیٹو کا۔۔۔ کہا ں گئے وہ ” مجاہدین“ جو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے سرکاری تنصیبات اور فوجوں پر حملہ کرتے تھے؟

یہی گیم تحریک طالبان پاکستان کے نام سے وطن عزیز میں بھی کھیلی جا رہی ہے- کیونکہ سرمایہ داروں کی نظر بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے گرم پانیوں تک رسائی اور یہاں موجود پٹرول(جو ایران اور مشرق وسطی کو جاتا ہے) اور دیگر معدنیات پر ہے-نام نہاد اسلامی جہاد کے نام پران یہودیوں کا پیسہ 'انوسٹ' کیا جا رہا ہے-جس کے نتائج اگلے بیس سال تک متوقع ہیں- اور اس چال میں غریب افغانی اور ازبک نوجوان آتے ہیں- جن کوکمانڈو اور گوریلا طرز کی ٹریننگ دینے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" پیش پیش ہے-

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمران جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں- کیونکہ یہ صرف بیان بازی کرنے والی کٹھ پتلیاں ہیں- ان کے تانے بانے تو ان کو اقتدار کی کرسیوں پر بٹھانے والےان صیہونی برنس ٹائیکونز سے ملتے ہیں-

حال ہی میں پتہ چلا ہے کہ چند ارب پتی لوگ اسوقت دنیا میں میٹھے پانیوں کے بڑے بڑے آبی ذخائر خرید رہے ہیں- کیونکہ آئندہ جنگیں پٹرول پر نہیں، بلکہ پانی پر ہونگی-اس سلسلے میں بعض ارب پتی نے پنجاب کے آبی ذخائر خریدنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے- جس پانی سے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ کی فصلیں بھی سیراب ہوتی ہیں-

مجھے یہ بات سن کر وہ واقعہ یاد آجاتا ہے- جب مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا- جو ایک یہودی کی ملکیت تھا- اور وہ مسلمانوں کو پانی بہت مہنگا بیچتا تھا-

حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ) نے وہ کنواں انتہائی مہنگے داموں خرید کر عوام کیلئے وقف فرما دیا تھا- 

اب دیکھنا یہ ہے کہ آجکل کے زمانے کے ہم عام لوگ، جو ان سرمایہ کاروں کیلئے کیڑے مکوڑں کی نظر رکھتے ہیں- کیا انکے کے مقاصد کو سمجھ پائیں گے- یا خواب خرگوش سے بیدار نہیں ہونگے-

No comments:

Post a Comment