Thursday, November 20, 2014

چلو چلو عمران کے ساتھ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, تحریر: عُمر اقبال

خان کو یو ٹرن لینے والا کہنے والے آج خود اپنے ہی کیئے گئے وعدوں سے مُکرے ہوئے ہیں-
جن کو الیکشن سے پہلے وعدے اور الیکشن کے بعد جوش خطابت کا نام دیا گیا تھا-
ان میں کسی شخصیت کا سڑکوں سے گھسیٹنا، لُوٹی ہوئی دولت واپس لانا، بُلٹ ٹرین کا منصوبہ اور چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ شامل ہیں- لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی کو فرصت کہاں، جہاں عوام اپنے حق کیلئے جاگ اُٹھی ہو، وہاں پر کام کرکے دکھانا ہوتا ہے- نری باتوں سے کام نہیں چلتا-
مجھے ترس آتا ہے ان لفافہ لکھاریوں پر بھی جو اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت میاں اور میاں کی ٹوڈی کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے-
بعض نے تو میاں کی ٹوڈی کو اگلا وزیر اعظم تک مان لیا ہے-
انکے پاس سوائے عمران کی ذاتیات کے اور کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا- جبکہ وہ بذات خود اچھی طرح جانتے ہیں، کہ انکے اپنے ناخدا ؛ ذاتی زندگیوں کے تعلق سے ؛ خود کتنے پانی میں کھڑے ہیں-
فیس بُکی دانشور اپنی ریٹنگ کے چکر میں عجیب عجیب فحش الفاظ سے لوگوں کو عارضی طور پر محظوظ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جو کے فقط ایک پانی کا بلبلہ ہیں-
اُدھر ٹویٹر کی نام نہاد شہزادی صاحبہ ؛ اپنی سربراہی میں کام کرنے والی سوشل میڈیا ٹیم بقول معروف صحافی، سُہیل وڑائچ، چن چن کر ان صحافیوں کو گالیاں دلواتی ہے، جو عمران کے خلاف ٹی وی پر بولتے ہیں- یہ لوگ اپنے آپ کو تحریک انصاف کا کارکن ظاہر کرتے ہیں-
اور اسی شہزادی کی ایماء پرعمران خان کے مرحوم والد اکرام اللہ خان نیازی کو منہ بھر بھر کرگالیاں اور انکی توہین کی جارہی ہے-
اب میاں محمد شریف صاحب بھی مرحوم ہیں- اور خان صاحب سے اپنے کارکنوں کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ کسی مرحوم شخص کے بارے میں کوئی الزام تراشی نہیں کرنی- وگرنہ
بقول مومنؔ
؎
ہمیں سب یاد ہے ذرا ذرا-
تمہیں یاد ہو کے نہ یاد ہو-
اللہ ان دونوں مرحومین کی مغفرت فرمائے- اور محمد شریف مرحوم کی اولاد کو ہدایت نصیب فرمائے- آمین
جتنا سرمایہ دارنہ نظام (کیپٹل ازم)کے حق میں اور اداروں کو قومی تحویل(نیشنل ازم) میں دینے کی مخالفت اس شریف خاندان نے کی ہے- شاید ہی ملک میں اسکی مثال مل سکے-
یہی وجہ شریف خاندان کی بھٹو خاندان سے دشمنی ٹھہری تھی، جو بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی انکو معاف نہ کرسکی- کیونکہ جب تک میاں محمد شریف مرحوم، حیات تھے- نوازشریف کی تمام پالیسیاں "اباجی" کے فیصلوں کی مرہون منت ہوتیں تھیں-
جس پر پیپلز پارٹی کے ارکان و لیڈران پھبتیاں بھی کستے تھے-
اس موضوع پر بھی انشاءاللہ پوری ایک تحریر لکھوں گا-
بات لمبی ہوتی جارہی ہے اب اصل موضوع کی جانب آتا ہوں-
خان صاحب ہمارے لیئے کھڑے ہیں- ایک بندہ ہمارے لئیے ہی کنٹینر پر گرمی سردی برداشت کررہا ہے-
وہ کوئی جاگیردار یاسرمایہ دار نہیں- نا ہی بیرون ملک اثاثوں کا مالک-
ہم عوام ہی اس شخص کی طاقت ہیں- اس ملک کی طاقت ہیں- ایک اکیلا انسان اس ملک کو نہیں بدل سکتا-
لہٰذا فیس بک ٹویٹرکے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بهی آگے آنے کی ضرورت ہے-
یہ 30 نومبر کا دن روز روز نہیں آئیگا-اور اگر اب کی بار اس کرپٹ نظام کو شکست دینے میں ناکام ہوگئے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی-
خدارا اس ملک کیلئے سوچئے-کرپٹ نظام کی تبدیلی ہم عوام سے ہے-
خان عزت ، دولت یا شہرت کا بھوکا نہیں-
خان صاحب کا نام کرکٹ نے بهی رہتی دنیا تک روشن کر دیا ہے-شوکت خانم ہسپتال میں بهی انکو کروڑوں غریبوں کی دعائیں ہیں-
خان صاحب کی جگہ، اگر ہم آپ ہوتے تو شاید آج انگلینڈ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آرام سے زندگی گزارتے-
یا کسی ملک کی کرکٹ ٹیم کے کوچ ہوتے- یا لیڈر شپ پر ، یورپی یونیورسٹیز میں لیکچر دے رہے ہوتے اور دنوں میں کروڑں کا مال بناتے-
لیکن اس انمول دیوانے کو اپنی احسان فراموش قوم ، کا درد لے بیٹھا ہے- کیا ضرورت تھی قوم کو جگانے کی اور یہ دھرنے کی؟
جو لوگ پہلے کہتے تھے کہ یہ دھرنہ ایک ہیجانی کیفت ہے- اور بیرون ملک سے پیسہ آ رہا ہے- آج وہی لوگ اپنے بیانوں سے یوٹرن لے کر کہتے ہیں کہ استعفی مانگنے والے آجکل چندہ مانگنے پہ آ گئے ہیں-
خان اکیلا کھڑا ہے اس نظام کو صحیح کرنے کیلئے- آج سب 'اسٹیٹس کو 'کے مخافظ ایک ہیں- اس دیوانے ملنگ کو اکیلا چھوڑنا اسکے ساتھ نہیں بلکہ اس دھرتی ماں ، پاکستان ، کے ساتھ سراسر زیادتی ہے –
خان کا کچھ نہیں بگڑنے والا –
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ خان عزت ، دولت یا شہرت کا بھوکا نہیں- اب تو چائینہ جیسے دوست ملک نے بھی آئرن برادران کی اصطلاح متعارف کرا دی ہے- عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے- اگر عوام "آئرن برادرز" کی اصطلاھ سمجھ جائے تو-
ہمارا اپنا مستقبل تباہ ہوجائے گا-
ہم پھر سے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کرپٹ نظام کے غلام ہوجائیں گے-
جہاں گلو بٹوں کا راج ہوگا اور ہم عوام قربانی کے بکرے بن کر ان بڑی توندوں والے بھتہ خوروں ، پٹواریوں اور چوروں، ڈاکوؤں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے ہونگے-
لہذٰہ اب نکل پڑو اس نظام کی تبدیلی کیلئے- اور بدل دو اپنے ملک کی تقدیر-
بندہ ایک قدم اُٹھائے تو اللہ آگے دس راستے کھول دیتا ہے-
پاکستان کے بیٹو اور بیٹیو! !!!!!!!!!!آپ کوپہلا قدم بڑھانا ہوگا-
لے آؤ اس ملک میں اُجالا ، جس پاکستان کا خواب ہمارے پیارے قائد اعظم نے دیکھا تھا- چلو چلو عمران کے ساتھ-

Wednesday, November 19, 2014

نادان

یہ نادان سمجھتے ہیں کہ ہم ایک حادثے کی بنیاد پر پروپیگنڈے کا گرد وغبار اڑاکر سورج کا راستہ بند کردیں گے ، مگر نہیں جانتے کہ سورج کسی گرد وغبار سے تھوڑا گھبراتا ہے ،
انسانوں کے دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں اور اللہ جس طرف چاہے اسے پھیر دیتا ہے ،
پاکستانی عوام کے دل عمران خان کی محبت سے لبریز ہیں تمہارا ظالمانہ پروپیگنڈہ ان دلوں کو اس فدائے ملت کی جانب سے پھیر نہیں سکتا ،
کیونکہ پاکستان کے عوام سمجھ چکے ہیں کہ یہی ہے وہ انسان جو ان کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے جس نے اپنی ساری خوشیاں اور ساری راحتیں اپنی قوم کی حالت سدھارنے کےلئے قربان کردی ہیں-
 
L

قصہ ساڑھے چہار درویش، لالہ صحرائی جی کے قلم سے-

ہمارے محترم ظفر جی نے قصہ چہار درویش لکھا-
جس میں انهوں نے خان صاحب، قادری صاحب، شیخ رشید اور شاہ محمود کے لتے لئیے ہیں-
اس تحریر کے بعد پی ٹی آئی کے اہل قلم بهی قلم اٹھانے پر مجبور ہوئے اور قصہ ساڑھے چہار درویش زیب قرطاس کیا-
فدوی ادب کی دنیا کا ایک نالائق ترین طالب علم ہے-
ظفر جی کا قصہ چہار درویش
اور لالہ جی کا جواب قصہ ساڑھے چار درویش پڑھ کر دل کو تسلی سی ہوئی کہ مملکت خداداد کے بیٹوں میں ادب کا ذوق باقی ہے- اور غم بهی ہوا کہ یہ ادبی صلاحیت بدذوق سیاستدانوں کی نذر ہوئی جا رہی ہے-
میری دونوں نوجوان لکھاریوں سے اپیل ہے نوجوان نسل کے سدهار کیلئے اپنے أقلام کو جنبش دیجئے- اور ایک ایک غیر سیاسی تحریر لکھ کر ہمیں بہرہ مند فرمائیں-
اس تحریر کا مقصد سیکھنا ہے- کسی لکهاری کی ذاتی توہین نہیں-
ملاحظہ فرمائیں ظفر جی کے قصہ چہار درویش کا مدلل جواب لالہ جی کے قلم سے:
قصہ ساڑھے چار درویش (حصہ دوئم)
تحریر لالہ صحرائی:
--------------------------------------------------------------
حصہ دوئیم
کتھا پہلے درویش کی
پہلا درویش کہ یکتا توڑ جوڑ میں تھا، واسطے اپنی چالاکیوں کے بہت مشہور اور معتبر گردانا گیا زمانے بھر کا تھا، سارے درویش اس کو درویش اعظم بھی مانتے تھے اپنی بتیسی نکال کر ھنسا اور گویا ھوا
ھیھیھیھی شناتا ھوں بھائیو شناتا ھوں
پھر دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا
متوجہ ہو کر سنو اے ساکنان بزم
ماجرا اس بے سروپا کا سنو اور انصاف کیجیو زرا
" یا اللہ یا معبود میں تو ٹھہرا بے قصور"
میں سردار خطہء بھٹائی کا ھوں، پیشہء آباء میرا زمینداری اور سیاست میں بھی راہداری تھی، میں ایک دن باغ میں اپنے گھوڑے کو مربہ بادام کشمش اور شٹالہ کھلا رھا تھا کہ ایک بادشاہ زادی جو ملک فرنگ سے پڑھ کر آئی تھی، ایک نظر اس کی مجھ پر پڑی اور پتا نہیں کیا ادا پسند آئی کہ میں اسے بھاء گیا، واسطے نکاح کے پیغام اس کا سن کر ٹھکانہ خوشی کا نہ تھا، بعد عقد کے جس سے مجھے ایک بیٹا ملا جو مقصد تعلیم کے ملک فرنگ بھیجا
آج وھی لڑکا واپس آکر جب کہتا ھے "زندہ ھے مرد زندہ ھے" تو لوگ اس کی لچک دیکھ کر ھنستے ھیں، یہ میری زندگی میں تیسرا بڑا جھٹکا تھا، پہلا اس وقت لگا جب یہ سامنے بیٹھا بھینس نما دوسرا درویش، دو نمبر کا درویش زرا سی چشمک میں مجھے سالہا سال کے لئے قید خانے میں ڈال گیا تھا
دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب میری زوجہء اقدس کو بیچ راہ کے شہید کر دیا، میں غم سے نڈھال کوہِ گراں اٹھائے کھڑا تھا لیکن پھر میں نے حوصلہ کر کے اس قاتل کو سلام کیا کہ اس نے مجھے وعدہ راج گدی دینے کا کیا تھا، بادشاہ بن کر بھی مجھے سکون تھا نہ چین تھا، بیوی کے غم میں کچھ کھاتا تھا نہ پیتا، دبلا بلا کا ھو چکا تھا کہ ایک پیر مرد نے کہا اسے کھانے کی ھر چیز دکھاؤ جو کھانے کا من کرے وہ اسے جی بھر کر کھانے دو
بعد اس تجویز کے میرے سامنے دنیا بھر کا نعمت کدہ معہ خزانہ قوم کا کیا تو میں نے اسے کھانا شروع کر دیا
ھیرے، جواھر، موتی آبدار، لعل، نگینے، زمرد، پکھراج، نقد مال و سیم و زر، اشرفیاں، سکے، ٹکے، آنے، پائیاں سب کھاتا چلا گیا، جیسے جیسے مال کھایا اور کھلایا برسوں کی بھوک مٹتی گئی اور چہرے میرے اور ساتھیوں کے سب کے سب مانند انار سیستانی و کشمیری کھلنے لگے، میرے ساتھیوں نے محل شاھی اور دربار شاھی سے ھر خزانے تک سرنگیں کھود رکھی تھیں، اور رات دن مال نکال نکال کر ملک سوئیستان بھیجتے رھے جہاں جہاں سے خزانہ خالی ھوتا وھاں لکڑیاں، پتھر، اینٹ گارا، ریت بجری، ڈال کر پر کرتے رھے کہ خزانہ خالی ھونے کا گمان کسی کو نہ گزرے کیونکہ دونوں ھاتھوں سے لوٹو تو حقیقت ھے اگر گنجِ قارون ہو تو بھی پورا نہ پڑے، ساتھ ھی ساتھ فرنگی بزرگ کامل سفید کھال، سفید ریش، روشن چہرے والے نے اس اجاڑ گردی پر الگ سے انعام کالانعام، مال و متاع اور شاباش نذر کی کہ ھم نے اس کیساتھ بھی حق وفا خوب ادا کیا تھا
شاھی محل میں آدمی ہر ایک عہدے کے تعینات ہیں کہ خبرگیری خدمت ھماری خوب کئے رکھتے تھے، بعد مدت قیام ختم ھونے کے کسو نے خوشی سے نہ کہا کہ جاؤ سرکار بلکہ سب روتے بلکتے تھے کہ نہ جاؤ، لیکن ھم کیا کرتے ھماری مدت شاھی ختم ھو گئی تھی اور باری دوسرے درویش کی شروع ھونے والی تھی
ایک اھلکار معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ساتھ اس کے کئی خدمت گار، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا اور ھماری عادت کو دیکھتے ھوئے کہا کہ اپنی مدت شاھی میں جو تم نے چاھا وہ کیا تو اب جاتے ھوئے جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن، روپے سونے کے، اور جڑاؤ کے، اس محل میں ہیں، یہ سب تمہارا مال ہے، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے، کیونکہ آنے والے نے یہ ویسے بھی پھینک کر سب کچھ نیا خرید کرنا ھے، میں نے کہا جو تمھاری مرضی، تمھارا دل نہیں توڑ سکتے پھر جتنا اسباب اس محل شاھی میں تھا، شطرنجی، چاندی، قالین، ستیل پانی، منگل کوٹی، دیوار گیری، چھت پردے، چلونیں، سائبان، نم گیرے، چھپر کھٹ مع غلاف، اوقچہ، توشک، بالا پوش، سیج بند، چادر تکیے، تکینی، گل تکیے، مسند، گاؤ تکیے، دیگ دیگچے، پتیلے، طباق، رکابی، بادئیے، تشتری، چمچے، بکاؤلی، کف گیر، طعام بخش، سرپوش، سینی، خوان، پوش، تورہ پوش، آبخورے، بجھرے، صراحی، لگن، پان دان، چوگھرے، چنگیر، گلاب پوش، عود، سوز، آفتابہ، چلمچی سب میرے حوالے کیے کہ یہ تمہارا مال ہے چاہو اب لے جاؤ، نہیں تو ایک کوٹھڑے میں بند کر کر اپنی مہر کرو، جب اگلی باری آؤ تو پھر لے جائیو جو تمہاری خوشی وھی ٹھیک ھے، ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو
ھم نے رعیت کو کبھی نہیں بھولا سب کچھ اسی کے لئے کیا، ھم سلامت ھونگے تو ان کا کچھ سوچیں گے، یہی سوچ کر اول اوائل میں مضبوط اپنے آپ کو خوب کیا، پھر کچھ دھیلے خواجہ سگ پرست کو دیئے واسطے خرچ پتے عوام کے اور شکر خدا کا بجا لائے، مہم اپنی انجام کو پہنچی، بخیر وعافیت اور ساتھ اطمینان کے ھر کوئی خوش تھا سوائے آزاد بخت کے
آزاد بخت کو مل بیٹھ کر کھانے کے بجائے درد عوام کا کودا تھا، ھمارے دستر خوان تو ویسے بھی ایسا وسیع تھا کہ سو آزاد بخت اور آن بیٹھیں تو کچھ کم نہ پڑے، پر اس سادہ انسان کو فقط عوام کی پڑی تھی، اب عوام کو لئے مارا مارا پھرتا یہاں تک آن پہنچا ھے پر
؎ اب پچھتائے کیا ھوت جب کھوت چر گئے کھیت
اب ھم سے کھایا پیا اگلوانے چلا آیا بیٹھا ھے اور پوچھتا ھے اتنی دولت کہ جس کا قبالہء تصرف تمھارے نام ھے وہ کہاں سے آئی اور کیسی ہے؟ ھو نہ ھو تم نے شاھی محل سے لُوٹی ھے، عوام کا حق دے دو، عوام کا حق دے دو، ارے بھائی عوام کا حق ھم نے بیچوں بیچ خواجہ سگ پرست کتوں والے کے حوالے کر دیا تھا، اب کاھے کا حق باقی رہ گیا ھے میاں
آآآآہہہ وقت گزر گیا مگر وہ عیش و عشرت یاد ھے کہ فرنگی بادشاھوں کو بھی ایسی عیش و عشرت میسر نہیں جیسی ملک جناح کے شاھی محل میں ملتی ھے لیکن اس آزاد بخت نے آن کر ناک میں دم کر رکھا ھے
تو پنواڑیو میرے بھائیو
اب علاج آزاد بخت کا ذمے تمھارے ٹھہرا کہ پیٹ تمھارے ساتھ بھی لگا ھوا ھے جس کی کفالت ذمے ھمارے رھی بس تمھارے اوپر فرض کئے دیتا ھوں علاج اس آزاد بخت کا اور یہ تھی میری کہانی ھمارے ساتھ انصاف کیجیو بھائیو
کتھا دوسرے درویش کی
================
پہلے نے دوزانو بیٹھ کر بغیر وضو کے اپنی کتھا سنائی تو دوسرا وضو کیوں کرتا چنانچہ دوسرے درویش نے چارزانوں بیٹھ کر کہ، وہ جنگلی بھینس سا بھاری بھر کم انسان، دوزانوں بیٹھنا جس کا محال تھا یوں گویا ھوا
سنو خلق خدا درویش اعظم نے جو کہا ..... واللہ حرف بحرف سچ کہا
اے دلق پوشو ...... یہ عاجز حقیر فقیر بونگا بچہ ایک ترکھان کا ھے، خاندانی کام والد صاحب کا ھمارا چھان بـُورا، چھان ٹُــکر خریدنے کا تھا جسے بھٹی میں پگھلا کر پھر سے روٹی بناکر بیچتے تھے، ہفت اقلیم میں اس کام کے برابر کوئی دوسرا کام نہ تھا، مجھ سے چھوٹا بھائی کہ ستارہ آفتاب اور ساتوں کواکب میں نیر اعظم ھے اس وقت سستی روٹی بنا کر بیچتا تھا لیکن مجھے یہ کام سخت ناپسند تھا
میرے قبلہ گاہ نے لڑکپن سے قاعدے اور قانون علم و حکمت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تاکہ تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل قبول بنوں، لیکن خدا کے فضل سے بیس برس کے سن و سال میں سب علم سے جان چھڑا کر امراء سے جان پہچان کرنے چل نکلا، ھرگاہ کہ کسی کو یہ کام پسند نہ تھا مگر میں کسی کے ھاتھ نہ آیا حتیٰ کہ کئی سال بعد میری مراد بھر آئی
میں اِدھر اُدھر حقِ آواراگی پورا کرتا پھرتا رھا، جان پہچان بہت بنا گیا تھا بیچ امراء اور شاھی خاندانوں کے کہ ایک دن ایک جرنیل خرقہ پوش ھمراہ نیزے تیر و تفنگ معہ لاؤ لشکر مجھے ڈھونڈتا آن پہنچا، استاد پھجے کے ٹھیئیے پہ، کہ بغرض "نہار خوری" بوقت دوپر ایک بار وھاں میرا جانا ضرور ھوتا تھا
جرنیل مذکور نے شاھی محل لیجا کر مجھے حمام بھیجا بعد اس کے خلعت شاھی سے نوازا اور مرتبہ سرکار میں وزیر کرنے کا قصد کیا، جب اسے پتا چلا کہ مجھے حساب کتاب "ککھ" نہیں پتا تو خوش ھو کر وزارت خزانہ کا قلمدان میرے ھاتھ دیا اور محل شاھی میں رھائیش جاری کرنے کا حکم فوری اذن کیا
میری تباہ کاریوں سے خوش ھو کر مرکزی جرنیل نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے بیٹے کو میرے ماتحت قرار دیا، اس عزت افزائی کو دیکھ کر قبلہ والد صاحب نے مرکزی جرنیل مذکور سے کہا اب یہ آپ کا ھی بیٹا ھے میرے تو ویسے بھی کسی کام کا نہ تھا، قبلہ گاھی کے لہجے کی تلخی دیکھ کر میں نے عرض کی ابا حضور آپ "چنتا" مت کیجئے میں سارے قرض چکا دوں گا، آپ کا چھوٹا سا چھان بُورے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا دوں گا، اور خدا کے فضل و کرم سے بادشاہ بنتے ھی ایسا کر کے دکھا دیا
مجھے کئی بار بادشاہ سلامت بنایا گیا مگر ھر بار ایک سے ایک نئی ڈھینگ مارنے پر چلتا ھونا پڑا، اب آپ کو تو پتا ھی ھے شاھی امور سلطنت کتنا "اوکھا" کام ھے اس لئے درویش اعظم نے جس قید و بند کا ذکر کیا وہ اھتمام میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا، بس چوک ھوگئی، مجھے سہواً ایسا ھو گیا، جس کے لئے میں شرمندہ ھوں اور اس حال درپیش مشکل سے نجات کا راستہ چاھتا ھوں، جب سے آپ تاج و تخت میرے حوالے کر کے گئے ھیں اس آزاد بخت نے میرا جینا حرام کیا ھوا ھے اس کی کوئی راہ تلاش کرو
ویسے اللہ کے فضل و کرم سے میں نے واسطے اس کا زور توڑنے کے طلسمی پانی منگوایا ھے، ھندو پنڈت نے کہا ھے دم کیا ھوا پانی ھم بھیج دیں گے، نالے بھر بھر اس پانی کے پہنچا دیجیو ملک کے کونے کونے میں اور چھڑک دیجیو ھر قریہ قریہ، بستی بستی، نگر نگر جہاں سے آزادبخت کے دیوانے نکل نکل کے آتے ھیں، جب ساری بستیاں " رُڑ " جائیں، پانی میں بہہ جائیں تو وھاں کے بھوکے پیاسوں کو روٹی پہنچائیو اور وفادار اپنے رھنے کی تلقین کیجئیو تو تیرا بیڑا پار ھوگا
؎ لیکن بھائیو جب قسمت ھوجائے جھُڈو، تو کیا کرے گا اونٹنی کا دُودھو
زرد بیل پر چڑھ کر جہاں جہاں بھی بھائی روٹی لے کر جاتے تو ناھنجار لوگ ان کا منہ چڑاتے، گالیاں دیتے، آزاد بخت کے دیوانے ایسے ھی بات بے بات گالیاں دیتے ھیں، اب بھلا یہ کوئی بات ھے کہ روٹی دینے گئے بندے کو گالیاں دی جائیں اور جا درویش جا کے نعرے لگائے جائیں، حالانکہ جب دیہاتی عورتیں اپنے کسان کی روٹی لے کر کھیتوں میں جاتی ھیں تو وہ خوش ھوجاتے ھیں، لیکن اس کمی کارے کو ایک تو روٹی دو اوپر سے باتیں بھی سنو، کیا دھرا یہ سارا اسی آزاد بخت کا ھے جس نے خواب ترقی کے دکھا رکھے ھیں جبکہ ترقی کرنا صرف درویشوں کا حق ھے ھر چوھڑے چمار کا نہیں
بے شک، بے شک، حق فرمایا اے درویشِ گھمبیر سخن، تو سچ کہتا ھے، کہاں ھم اشرف الاشراف خاندانی لوگ کہاں یہ کمی کمین رعیت، سارے درویشوں نے ھاں ملائی اس کی ھاں میں اور فغاں ملائی اس کی فغاں میں
اخلاقی گینڈے نے شراب کا گھونٹ بھر کر وجد میں سر دھنتے ھوئے کہا بات خوبصورت انتہا کی کہی ھے عالم پناہ کسی بھی مذھب میں مرد کا منہ چومنا جائز نہیں ..... واللہ ..... ورنہ اتنی پیاری بات کہنے پر آپ حق رکھتے تھے کہ منہ چوما جائے آپ کا
ایک شرمیلی فروٹی جوسی حسینہ نے اخلاقی کمان دار مصاحب کا شوقٍ چـُمن چـماٹی انگڑائی لیتے دیکھا تو ایک ھوائی چـُمن اپنے یاقوتی ھونٹوں سے روانہ بہ خدمت اقدس کیا جسے ھونٹوں میں رکھ کر بھنبھوڑتے ھوئے گینڈے نے ماءاللحم دوآتشہ کا ایک نیا جام انڈیلا اور کہا، دل چھوٹا نہ کیجئے عالم پناہ، ھم آپ کے ساتھ ھیں جناب، ھم آپ کے ساتھ
کتھا تیسرے درویش کی
===============
اپنی کتھا پیش کرتا ھوں دوستو، زرا کان لگا کر سنو
تیسرے درویش نے اُکڑوں بیٹھ کر قوت گویائی جمع کی کہ بندہ بہت اکڑو تھا جہاں بھر کا، اس لئے اکڑ کر بولا
مجھ ایسا نابغہء روزگار، سرد گرم چشیدہ، کمر خمیدہ، اوصاف حمیدہ کئی سال پہلے دنیا میں جب وارد ھوا تو گھر میں خوب چراغاں ھوا، پورے شہر میں لوگوں نے اپنے خرچے پر مٹھائیاں بانٹیں کہ ھمارے آقا مرشد سرکار کی محنت سے ھمارے بچوں کے لئے بھی آنے والے وقت کا ایک آقا اور پیدا ھوگیا
میرے ولی نعمت وہاں بادشاہ تھے اور سوائے میرے کوئی فرزند لاڈلہ نہ رکھتے تھے، اسی لئے میں بگڑتا چلا گیا، میں جوانی کے عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوپڑ، گنجفہ، شطرنج، تختہ نرو کھیلا کرتا تھا یا سوار ہو کر سیر و شکار میں مشغول رہتا
گردش زمانہ نے والدین کا رکھا ھوا نام کہیں گم کردیا اور رعایا مجھے ہاضمی کے نام سے یاد کرنے لگی، وجہ تسمیہ اس اجمال کی یہ ٹھہری کہ ھر لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا معدہ پایا ھے لیکن کوئی راز کی بات اس پیٹ میں نہیں ٹھہرتی
بچپن مین امی حضور نے چوبی مہد میں لیٹانا شروع کیا تو میں پنگھوڑے کا ایک بازو ہی چبا گیا، امی جان فرماتی ھیں کہ یہ پنگھوڑا مُلک پرستان سے دو پریاں چھوڑ کے گئی تھیں واسطے اس فقیر کے
فقیر جوانی میں ایک دن ان پریوں کی تلاش میں روانہ ھوا، بہت مارا مارا پھرتا رھا بجز اس کے کوئی تلاش نہ تھی کہ ان پریوں کو ڈھونڈ کر شکریہ ادا کروں، ھرچند پرستان کا راستہ معلوم نہ تھا پھر بھی منہ اٹھا کے جیدھر سینگ سمایا نکل پڑا، جیدھر ھمت ھوئی چل پڑا
راستے میں ملاقات ایک سیاسی پنڈت سے ھوئی جس کے پاس ایک گھن چکر وزیر کی کمی تھی اس مرد دانا نے مجھے حق مہر شرعی بتیس ٹکے آٹھ آنے کے عوض وزارت شاہی کا قلمدان تھما دیا، مہر شرعی کم تھا لیکن نان نفقہ کی بہتات تھی، جب کھا کھا کے میرا منہ بھر گیا تو فقیر کو اونگھنی آگئی، جب بندے کا پیٹ بھر جائے تو اونگھنی آ جاتی ھے اس وقت تھوڑا عرصہ سو لینے سے بندہ پھر تروتازہ ھو جاتا ھے
اس لئے فقیر نے "کلٹی" ماری اور اونگھنے کے لئے ایوان حکومت کا منہ چڑا کر واپس اپنے گھر چلا گیا، پھر ایک دن گھر سے نکلا تو ایک بزرگ ثابت ثبوت صورت نظر آئے، بزرگ نے سمجھا بجھا کر اپنی دینی جماعت میں داخل کیا تاکہ سدھر جاؤں لیکن غیرت سادات جاگی اور گویا ھوئی سید بادشاہ کو غیر سید کے آگے نہیں جھکنا چاھئے دوسرا وھاں لیٹیاں لگانے کا کوئی سربندھ نہیں تھا اس لئے فقیر کا من نہیں لگا اور چپکے سے "کلٹی" مار کے جماعت سے باھر نکل آیا
ویسے بھی ان دنوں ایک دوسرا کھابا کھلنے والا تھا، ایک "شکاری بادشاہ" نے سرکاری بادشاہ سے تاج و تخت چھین کر جب اپنا دسترخوان لگایا تو فقیر کو بلا کر پھر بتیس ٹکے آٹھ آنے بعوض حق مہر شرعی مجھے قلمدان ایک وزارت کا تھما دیا، میں پہلے بھی اس معاوضے پر کام کر چکا تھا اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی اور نان نفقہ بھی بے حدوحساب تھا اوپر سے میں ٹھہرا ہاضمی، لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا معدہ پایا ھے جس میں عام طور پہ ھر چیز ہضم ھو جاتی تھی لیکن راز کی بات اس میں نہیں ٹھہرتی تھی
میں کئی بار بادشاھوں کے ساتھ رھا اور جب چاھتا "کلٹی" مار کر نکل جاتا، اتنی بار "کلٹی" مار کر دکھانا آسان نہیں ھوتا مگر میرے لئے بہت آسان تھا اس لئے کہ میری زنبیل میں ایک طلسمی انگوٹھی تھی جو بچپن میں ایک پری مجھے تحفے میں دے گئی تھی جس میں "کلٹی مار" مونگا جڑا ھوا تھا ، میرے چاھنے والے لوگ ھمیشہ میری "کلٹی" مار حرکتوں پر خوش ھوتے لیکن اب بہت ناراض ھیں اس کی وجہ یہی آزاد بخت ھے، میں کبھی آزاد بخت کے ساتھ نہ ملتا لیکن میرے ساتھ اس دوسرے درویش نے بہت بُرا "دھروؤ" کیا تھا
یہ دوسرا درویش خوب جانتا ھے کہ اس کی سرکار میں دونوں بار میں شامل تھا، اس ناھنجار کا میں نے بہت ساتھ دیا، حتیٰ کہ جب ایک شکاری بادشاہ نے اس کی مقعد شریف پر ٹھڈے مار کر اسے دربدر کر دیا تو میں واحد بندہ تھا جو اس شکاری کے سامنے ڈٹ گیا اس نے مجھے زندان میں ڈال کر مہر قید کی ثبت کی، میں پھر بھی نہیں گھبرایا
جب یہی درویش ملک عرب کی خاک میں چھان بُورے کے کارخانے لگا کر عیش کر رھا تھا تو اس وقت بھی میں یہاں قید و بند کی صعوبتیں اٹھا رھا تھا مگر اس طوطا چشم نے جب واپس آکر زنا کی ایک نئی قسم "نوازنا" متعارف کرائی تو سب کو انعام کالانعام ملا، اس وقت مجھے اس نے "نوازنا" تو کیا تھا الٹا پیچھے پٹخ دیا
اس وقت مارے غصے کے مجھے "کلٹی" مارنے کی سوجھی اور میں کلٹی مار گیا، ایک خواجہ سگ پرست نے میری بہت منتیں کیں لیکن میں ماننے والا نہ تھا کیونکہ آزاد بخت نے مجھے اپنے باپ جیسی عزت دینے کی ٹھان لی تھی اور اس نے ایسا کر کے بھی دکھایا
میں آزاد بخت کے ساتھ ویسے تو بڑا خوش تھا لیکن ایک دن خواجہ سگ پرست نے جب "کلٹی" مارنے کا یاد کرایا اور ساتھ ھی لخلخہ سنگھایا تو میرا دماغ کھل گیا، اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ دوسرے درویش کو بڑی اچھی عقل آگئی ھے، وہ آپ کو بہت یاد کرتا ھے اور آپ کو "نوازنا" بھی چاھتا ھے تو میں آزاد بخت کو " اوا- توا " بول کر وھاں سے سرپٹ بھاگا اور ساتھ ان پرانے درویشوں کے آن ملا
لیکن میرے ساتھ میرے برسوں کے ساتھی شہر والوں نے اچھا نہیں کیا، ان کم بختوں نے آزاد بخت کے کہنے پر میرا سر بالٹی میں دے کر خوب دھلائی کر ڈالی، ابھی تک چکر پہ چکر آ رھے ھیں
اب تم لوگ ھی انصاف کیجیو کہ بھلا مجھ سے "کلٹی" مارنے کا حق چھیننے کا کسی کو کوئی اختیار ھونا چاھئے؟؟؟ اس لئے واسطے اس بلا کے کچھ چارہ کرلو نہییں تو لوگ "کلٹی" مارنا بھول جائیں گے اور تاریخ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتی جو "کلٹی" نہ ماریں
کتھا چوتھے درویش کی
================
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓاے خلق خدا میری کہانی سنو اور انصاف کیجیو
میرا نام پنواڑی ھے اور میں پنواڑخانے میں پیدا ھوا تھا، میں فرد واحد نہیں بلکہ ملک جناح کے طول و عرض میں پھیلا ھوا ھوں، قلمکاری سے لیکر ایوان حکومت اور ھر شعبے میں پایا جاتا ھوں، دست درازی اور توڑ پھوڑ کا شوق سانحہء پیدائیش سے پہلے کا ودیعت کیا ھوا ھے اس لئے کوئی ساتویں ماہ تو کوئی آٹھویں ماہ ھر پابندی توڑ کر باھر آگیا اور خدا لگتی کہوں تو سنو کہ خدا جانتا ھے، یہ تینوں درویش بھی جانتے ھیں کہ خدا کے بعد میں ھی ان تینوں کا آخری سہارا ھوں
پہلے درویش نے دوزانوں بیٹھ کر اپنی کہانی سنائی، دوسرے نے چارزانوں بیٹھ کر اور اَکڑو درویش نے اُکڑوں بیٹھ کر اپنی کہانی سنائی، اب میرے پاس بجُز اس کے کوئی چارہ نہیں بچتا کہ میں الٹا لٹک کر کہانی سناؤں ویسے بھی جب تک میں الٹا نہ لٹکوں مجھے سیدھا نظر نہیں آتا
لیکن ٹھریئے زرا پہلے میں تہبند کے نیچے جانگیہ پہن کر آتا ھوں کیونکہ ایسی حالت میں الٹا لٹکا تو دھوتی نیچے گر جائے گی اور آپ سمجھیں گے میرے دماغ میں سوراخ ھے، پہلے ھی لوگ سوال پہ سوال کرتے ھیں کہ میرے دماغ میں کوئی بات آخر بیٹھتی کیوں نہیں، اوپر سے یہ حادثہ ھوا کہ پہلے پہل بے دھیانی میں آزاد بخت کے مجنؤوں کے سامنے ایسی قلابازیاں لگا کر بہت زلیل و خوار ھو چکا ھوں، بڑی شرمندگی ھوتی ھے جب اس کے پٹھان کہتے ھیں تمھارے دماغ میں سوراخ ھے لاؤ اس کا علاج کریں
ھاں تو میں کہہ رھا تھا کہ میں ھی ان تینوں کا آخری سہارا ھوں جب تک یہ سکہ اچھالتے رھیں گے میں ان کے ساتھ ھوں، چابی والے کھلونے اور مجھ میں کوئی خاص فرق نہیں ھے جو بات ایک بار میرے من میں بٹھا دی جائے میں وھی کرنے پر بضد رھتا ھوں خواہ دنیا ادھر کی ادھر ھو جائے کیونکہ میں غلام ابن غلام ھوں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان ہی مہاپـُرکھوں کی غلامی میں دیکھنا چاھتا ھوں، خانہ زاد موروثی غلام ہوں جن کو راج دربار سے ھمیشہ سرفرزایاں بخشی گئی ہیں
میری طبیعت میں آپ جیسے بڑے لوگوں کو دیکھ کر حضور کا اقبال بلند رھے، دوارے بستے رھیں، مولا شہنشاہ بھاگ لگائے کہنے کی عادت گھٹی میں شامل ھے، آج کل میں نے "چـــمـوٹـا " چلانا چھوڑ دیا ھے اور قلم چلاتا ھوں، اس مقدس قلم سے میں آزاد بختوں کے ساتھ بیٹھی ان کی ماؤں بہنوں کو آوارہ اور بعض اوقات تو فاحشہ بھی لکھ دیتا ھوں، ایسی شقاوت قلبی پر میرے دل میں کہیں درد تو ھوتا ھے پر کیا کروں میرے گھر کا چولہا بھی اسی مزدوری سے چلتا ھے
اے خلق خدا انصاف کرنا کہ میرے آقاؤں اور ان کے بچے بچیوں کو رقص و سرود، شراب کباب کتنا سجتا ھے اور یہ جاھل آزاد بختی سڑک کنارے بیٹھ کر گانے بجانے کرتے کتنے بُرے لگتے ھیں
راز حق بھی کسی پر عیاں جب نہ تھا
تھا مگر تو ھی تو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
سے شروع کرتے ھیں اور پھر اس دیس کو نیا رنگ و روغن کرنے کے ترانے گاتے ھیں اور رات بھر ناچتے ھیں
علامہ اقبال نے ان جاھلوں کے بارے میں تھوڑا کہا تھا کہ
؎ کریں گے اھل نظر تازہ بستیاں آباد
وہ تو ھمارے آقاؤں کے بارے کہا تھا جنہوں نے اربوں توڑے اشرفیاں خرچ کر کے محلات بنائے، غلام بنائے، چہل قدمی کے لئے باغ بنوائے
ھم نے ادب سرائے پر بھی ایک احسان کیا ھے، اب کسی کو ڈھیٹ، بےشرم، بے حیا، جاھل کہنے کی بجائے ان سب معانی کو ایک ھی لفظ میں پرو دیا، اب اتنا کچھ کہنے سے بہتر ھے بندہ ایک پنواڑی کہہ کے حساب چکتا کرے جو کہنے سننے میں طبیعت پر بھی گراں نہیں گزرتا لیکن مقصد واضع کر جاتا ھے
میرے عزیز درویشو یہ ساری "کتے کھانی" میں نے تمھارے کنگرے گھسنے سے بچانے کے لئے برداشت کی ھے، دن رات ان آزاد بختوں سے منہ ماری کرتا ھوں صرف تمھاری خاطر، کس بات کی آزادئ چاھتے ھو تم، اس آزادی کے جھنجھٹ کو چھوڑ کر آؤ اپنے ان درویش صفت آقاؤں کے تلوے چاٹ کر کھاؤ پئیو موج کرو عیش کرو، ایویں خوامخواہ کا شورشرابہ بلند کیا ھوا ھے، بڑے لوگوں کی حاشیہ برداری کرنے کا اپنا ھی سواد ھے، ایسا میں ان کو سمجھاتا رھتا ھوں کس کے لئے، صرف تمھاری خاطر درویشو، صرف تمھاری خاطر، بس میرا وظیفہ دربار سے چلتا رھنا چاھئے بڑی مہربانی آپ درویشوں کی، درویشوں کا اقبال بلند رھے بلکہ ساجھا ، ماجھا، شادا سب بلند رھے
مارنا حاتم طائی کی قبر پہ لات کا
=====================
بتانے والا لکھتا ھے کہ ان درویشوں نے حاتم طائی کا قصہ سنا جس نے کسی غریب کی مدد کے لئے اپنے آپ کو اس غریب کے حوالے کر کے کہا، نوفل بادشاہ میرا دشمن ھے اس نے میرے اوپر پانچ سو اشرفیوں کا انعام رکھا ھے پس تم مجھے پکڑ کر اس کے دربار میں لے جاؤ اور انعام پا کر خوشحال ھو جاؤ، اس غربت سے تمھاری جان چھوٹ جائے گی، مگر وہ غریب یہ ظلم کرنے پر تیار نہ ھوا اسی بحث میں بات کسی اور کے کان پڑ گئی تو اس نے حاتم کو لے جا کر پیش کیا نوفل کے آگے، پیچھے پیچھے وہ غریب آن پہنچا اور فریاد کی کہ حاتم ایسا نیک انسان کسی سزا کا مستحق نہیں ایسے نیک دل انسان کو چھوڑ دو جو میری غربت دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو تمھارے آگے ڈالنے پر راضی تھا مگر میں نے ایسا نہ کیا، غریب کی بات سن کر نوفل بہت شرمندہ ھوا اور حاتم طائی کو دوست بنا لیا اور غریب آدمی کو 500 اشرفی انعام دیا
پہلا درویش جب بادشاہ بنا تو یہ قصہ سن کر پھوٹ پھوٹ کر رویا اور خواجہ سگ پرست سے کہا عوام کے لئے کوئی بھلیائی کا کام کرو، بادشاہ کی بات سن کر خواجہ سگ پرست نے ھر غریب کو 6 سکے روز کے حساب سے 2500 سکے سال بھر کے لئے ھر ایک کو دیئے، اور اس کار خیر کا ثواب ملکہ مرحومہ کو پہنچانے کا قصد کیا
غریب آدمی شاہ کے دور میں ایک دن 6 سکوں سے آٹا لے لیتا، دوسرے دن گھی، تیسے دن، کھانڈ، گڑ، شکر، چوتھے دن نمک مرچ، پانچویں دن سبزی اور چھٹے دن دودھ اور ساتویں دن سب کچھ ملا جلا کر ھانڈی پکا کر کھا لیتا اس طرح شاہ کی مہربانی سے ھر غریب نے اس کے دور میں سال میں 53 بار ھانڈی پکا کر کھائی، یہ بہت بڑی لات اس درویش نے حاتم طائی کی قبر پہ ماری تھی، ضرور اس بیچارے کی چیخ نکل گئی ھو گئی کیونکہ اس نے تو صرف پانچ سو اشرفیوں سے غریب کی خدمت کی تھی اور درویش اقدس نے 2500 ھر غریب کو دیں، یہ ھوتی ھے درویش کی بادشاھی، واہ واہ
دوسرا درویش جب بادشاہ بنا تو وہ بھی اس قصے کو سن کر پھوٹ پھوٹ کر رویا اور خواجہ سگ پرست سے کہا عوام کے لئے کوئی بھلیائی کا کام کرو، بادشاہ کی بات سن کر خواجہ سگ پرست نے کہا ان غریبوں کو کوئی روزگار لے کے دیتئے ھیں، اس کے لئے بڑی رقم مال و دولت درکار ھے، اگر یہ دولت خزانے سے دی تو بڑا نقصان ھوگا، بڑی سوچ بچار کے بعد بادشاہ نے ایک ادھاریئے کو پکڑ کر آگے کیا اور لوگوں سے کہا اس سے رقم ادھار لے کر اپنا اپنا کام کرو،
خواجہ سگ پرست نے پیلے رنگ کے سواریاں ڈھونے والے چھکڑے بنوا کر لوگوں کو خریدوائے تاکہ وہ سواریاں ڈھو کر اپنا گزارہ کریں، محنت میں عظمت ھے اسی لئے سب غریبوں نے پیلے چھکڑے خرید کر سواریاں ڈھونا شروع کر دیں اور سُکھ چین سے اپنا گزاہ کرنے لگے، لیکن جب چھکڑے زیادہ اور سواریاں کم ھو گئیں تو ادھار کے پیسے واپس نہ کرسکنے کی وجہ سے آھستہ آھستہ اپنے چھکڑے ادھاریئے کے ھاتھوں کھو کر پھر بے روزگار ھوتے چلے گئے
یہ بھی پہلے درویش جیسی لات تھی جو حاتم طائی کی قبر پر سہواً جا لگی اور حاتم طائی کے علاوہ سارے لوگ ھڑبڑا گئے اور بادشاہ کی واہواہ واہواہ کرنے لگے، واہ واہ واہ واہ
قصہ خواجہ سگ پرستوں کا
==================
خواجہ سگ پرست کوئی ایک بندے کا نام نہیں، یہ ایک سوچ کا نام ھے جو ان درویشوں کے حکم کی تعمیل میں اپنی صلاحیتیں بدرجہءاتم بروئے کار لا کر پہلے بادشاہ سلامت کے کتوں کو کھلاتے ھیں پھر جھوٹا ان کتوں کا اپنی عوام کو کھلاتے ھیں پھر تسلی سے بادشاہ سلامت کے ساتھ بیٹھ کر لپا لپ دونوں ھاتھوں سے خود کھاتے ھیں، پھر بھی کبھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا
کتھا بقیہ آدھے درویش کی
=================
چوتھے درویش کا قصہ جب ختم ھوا تو اصولاً محفل میں ایک اور رنگ شباب آنا تھا، مطرباء نے الوداعی لمحات سے پہلے، شروع محفل جیسا ایک سُر پھر سے چھیڑنا تھا جسے تان سَین سُن کر اپنی تانیں بھول جاتا اور بیجُوباورا سُن کر باؤلا ھوجاتا، خنجر جیسی پتلی کمریا لئے شرمیلی لچکیلی بل کھاتی نازنینوں نے جام بھر بھر درویشوں کے سامنے دھرنے تھے اور اخلاقی گینڈے نے اپنے ھونٹ کاٹتے ھویئے پھر ایک بار گنگنانا تھا
؎ کتھوں بھالدا ایں گول گول پُـٹھے کڑیاں کنواریاں دے
اور پھر پہلے کی طرح غٹاغٹ جام پہ جام لُنڈانے تھے مگر کباب میں ایک ھڈی آن پڑی
ایک کونے سے ایک غربت زدہ شخص اٹھ کر ھاتھ جوڑتا ھوا سامنے آیا اور کہا، درویشوں کا بھاگ سلامت رھے، جان کی اماں پاؤں تو کچھ عرض کروں
سب درویش ھکا بکا ایکدوسرے کو دیکھنے لگے، کسی سگ پرست نے پوچھا، اے میلے کچیلے، ھیچدان، کم ظرف انسان، تم اس محفل میں بنا نہائے دھوئے کیسے آن وارد ھوئے
بندے نے عرض کی حضور میں دھنی بخش نام رکھاتا سکنہ پِنڈ ٹُـڈِیـکے موضع عبدالحکیم کے پاس ضلع ملتان کا باسی ھوں اور منت اٹھا کر دربان کی بہت دور سے واسطے عرض گزارنے کے بہت پیدل سفر طے کر کے آیا ھوں، وھاں پیچھے بیٹھ کر آپ سب دربار سرکار کے درویشوں کی کتھا ھم نے دل و جان سے سنی، اب آپ ھماری
کتھا بھی سن لو خدا تمھارا بھلا کرے گا
اخلاقی گینڈے نے کہا درویشو، اس بندے کی بات سن لینی چاھئے، مفلوک الحال سائل ھے، کہو بابا کیا کہنا ھے
بندہ ھاتھ جوڑ کے دو قدم اور آگے بڑھا اور کہا حضور میں جب سے پیدا ھوا ھوں آپ کے ظلِ و سایہ میں نامراد ھی گھوم رھا ھوں، جب پڑھنے کا وقت تھا تب پڑہ نہ سکا، جب کمانے کا وقت تھا تب کما نہ سکا کیونکہ دونوں کاموں کے کرنے کا کوئی محل وقوع حاصل ھی نہیں تھا، ایسی کوئی سہولت ھوتی تو مستری کے ساتھ دیہاڑیاں نہ لگاتا کہیں منشی بن کے گزراوقات اچھی کر لیتا، پہلے اکا دُکا جو مزدوری ملتی کر لیتا تھا پھر ایک کھیت زمین جس پر والد بزرگوار کاشت کاری کرتے تھے بعد مُردن ان کے اب میں کاشت کر کے گزران کرتا تھا
ھندو کے پانی کا جو ترونکا اب ھمارے اوپر آن لگا ھے اس نے ھمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اب تو دمڑی کی ٹھڈیاں بھی میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں، دو تین فاقے کڑاکے کھینچ کر یہاں پہنچے ھیں، ہرگاہ میرے ساتھ پچیس لوگ اور مارے مصیبت کے باھر کھڑے ھیں، میں انہیں ٹھہرا کر باھر رون دھون منتیں کر کے دربان کی، فریاد گوش گزار کرنے اندر چلا آیا ھوں
آپ کے بھائی شہزادہ حضور ایک دن کی روٹی آن کر دے گئے تھے، ساتھ مصوروں نے تصویریں بنائی اور چلے گئے، اب بتلایئے کہ ھم باقی کے 364 دن کیا کھائیں
ھمارا کچھ بھلا کرو حضور، ایک کھیت ھمارا وہ بھی پانی میں ڈوب گیا، ھمارے ساتھ کوئی جمع پونجی تھوڑا ھی راکھی ھے، بھلا ایک کھیت کی آمدنی ھوتی ھی کتنی ھے، وہ سیانے کہتے ھیں ناں کہ
؎گنجی نے نہانا کیا اور نچوڑنا کیا
نامعقول ........... بے ادب گستاخ ......... حد ادب........... ایک دم سے کئی دبـکے لپکے بھری آوازیں ابھریں تو بندہ سہم کر تھوڑا پیچھے ھٹا، کن اکھیوں سے دوسرے درویش کی طرف دیکھ کر کہا حضور ناراض نہ ھوں ھم نے لفظ گنجی کا استعمال کیا ھے، پھر بھی معافی چاھتا ھوں
معافی مانگنے کا کچھ اثر نہ ھوا اور ایک مصاحب نے لخلخہ دواکھڑی سے اکھاڑ کر کھینچ کے سائل کو دے مارا، دھنی بخش نے لمبی جست لگائی اور بھاگ جانا ھی مناسب سمجھا، دیہاتی لمڈا، لمبا تڑنگا، ھڈی پسلی کا کھلا تھا اس لیئے یکبارگی لمبے لمبے ڈگ بھرتا اور جستیں لگاتا باھر نکلنے میں کامیاب ٹھہرا، ایک پہرے داروں چوبداروں کی ٹولی اس کے پیچھے بھاگی، مگر اس نے ھانک لگا کر ساتھ اپنے دوستوں کو لیا اور سرپٹ بڑی سڑک پر آگیا جہاں آزاد بخت کا اکٹھ موجیں مار رھا تھا، ھر چند کہ ان کے پیچھے ھوائی تیر بہتیرے چلائے گئے مگر خوبی تقدیر سے بچ بچا کر سب نکل گئے
آزاد بختوں کے اکٹھ میں پہنچ کر اس ٹولی کی سانس میں سانس اور دم میں دم آیا، چند لوگوں نے بھاگم بھاگم روٹی پانی لا سامنے رکھا، بھوکے پیاسے کئی دنوں کے گھاس پھوس کھاتے اجاڑ راستے طے کر کے پہنچے تھے سو کھانے پر پل پڑے
اتنے میں آزاد بخت اپنے تخت پر آن چڑھا، اس نے سنکھ نما آلہء آواز رساں اٹھایا اور کام شروع کر دیا، رات کے سناٹے میں اس کی گرجدار آواز گونجی اور شاھی محلات سے ٹکراتی ھوئی پائیں باغ میں ماحول بنا کر بیٹھے عیش کوش ٹولے کی سمع خراشی کرتے ھوئے پورے شہر میں پھیل گئی
اوئے درویشو
میں سب دیکھ رھا ھوں
عوام کے پیسوں پر تمھاری سب عیاشیاں میرے سامنے ھیں، میں تم سے عوام کا پیسہ اور چٹھی دست برداریء تاج و تخت لکھائے بغیر یہاں سے جانے والا نہیں
اوئے درویشو ..... سُنو
آزادبخت کی آواز سنتے ھیں پائیں باغ میں بیٹھے درویشوں کو "پدھیڑ" پڑ گئی، لگے سب بھاگنے اور کھسکنے کا چارہ کرنے
ساقی گری کرنے والی مہ جبینیں، نازنینیں گھبرا کر اپنے ھاتھوں سے سینے چھپا کر سرپٹ بھاگ اٹھیں، قلانچیں بھرتی ھوئی گئیں سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کو اور درویشوں کے چہرے پہ ھوائیاں اڑنے لگیں، جو جام خوشی خوشی ٹکرائے جانے تھے وہ "ھبڑ دبڑ" میں ٹکرا کر ٹوٹنے لگے اور آزاد بخت کی گرجدار آواز سن کر ھر کسی کی "پیتی آن کی آن میں ایسے لییہ گئی جیسے کبھی پیتی ھی نہ تھی"
رات کے سناٹے میں ایک ھی آواز گونج رھی تھی
یہ جہاں جب نہ تھا آسماں جب نہ تھا
تھا مگر تو ھی تو، تھا مگر تو ھی تو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
آزاد بخت کے من موجی دیوانے سر دھننے لگے، شاھی محل کے پاس پھیلی ھوئی کالی رات میں اللہ ھو اللہ ھو اور نئے دیس کے ترانوں پر آزادبختوں کو اس وقت تک محو رقص رھنا تھا جب تک اس کالی رات کی سحر نہ ھو
عبدلحکیم سے آنے والے آدھے درویش نے پاس کھڑے ایک آزادبختی سے پوچھا بھیا یہ کب تک کرنا پڑے گا، تو اس نے ناچتے ناچتے جواب دیا، تم نے آزاد بخت کو سنا نہیں، کیا کہا اس نے
اس وقت تک یہی کچھ ھوگا جب تک اس رات کی سحر نہیں ھوتی
دھنی بخش نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا پھر کچھ سوچتے ھوئے کہا
او ئے شروع تھی ونجو مَلۤو، پچھاں ول کے بھی کیا کریسوں، ایتھاں روٹی تے ملسی پئی
بھوک و افلاس کے ستائے ھوئے من موجی نئے دیس کی امید میں والہانہ ناچتے رھے اور چاروں درویش اپنے اپنے لحاف میں دُبکے نہ سو سکتے تھے نہ جاگ سکتے تھے اور اس عذاب سے ان کو کوئی چھڑانے والا بھی نہ تھا
رات کے پچھلے پہر تک اللہ ھو کی آواز آتی تھی یا پھر
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا

واہ رے انڈیا-

واہ رے انڈیا- اب تیری گلگت بلتستان پر بھی نظر ہے؟ کشمیر کا سودا تو میاں صاحب نے کردیا پہلے ہی-
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
بھارت نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ دیا میر بھاشا ڈیم کے منصوبے میں سرمایہ کاری نہ کرے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت نے امریکی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ یہ یقین دہانی کرائیں کہ امریکی کمپنیاں اس منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گی۔ 
سفارتی ذرائع سے ا رسال کی گئی اس شکایت میں بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ڈیم پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ علاقے میں تعمیر کیا جارہا ہے۔
پاکستان ڈیم کو گلگت بلتستان کے خطے میں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے متعلق بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے، اس لئے یہ مہاراجہ کشمیر کی سابق ریاست کا ایک حصہ تھا۔
L

کاپی پیسٹ لیگ---------------------------عمر إقبال


کاپی پیسٹ لیگ---------------------------عمر إقبال
آجکل کاپی پیسٹ کا زمانہ ہے-
اور ن-لیگ والے ہماری ہر اچهی پلاننگ اور آئیڈیاز چرا لیتے ہیں-
اپنا تو دماغ ہے نہیں انکے پاس کیونکہ نقل کیلئے بهی عقل کی ضرورت ہوتی ہے؛ اسلئیے چوری شدہ آئیڈیا پوری طرح ڈیلیور نہیں کر پاتے- اور عوام کو مایوس کرتے ہیں-
لہذا بہتر یہی ہے کہ اپنے آئیڈیاز کی حفاظت کی جائے-
پی ٹی آئی کا تھنک ٹینک اب، اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہے-
ن-لیگ نے ہمارے دیکها دیکھی اپنا تھنک ٹینک بنا لیا ہے-
لیکن چونکہ فطرت میں بے ایمانی اور نیت میں کھوٹ ہے-
فائدہ قوم کا نہیں اپنی جیب کا سوچتے ہیں-
اسلئیے اس برائے نام تھنک ٹینک کے ممبرز بهی ماجهو پٹواری یا مودا بدمعاش جیسے ہی لوگ ہیں-
جہاں پر سری پائے کا ریٹ ہی موضوع بحث ہوتا ہے-

یوم پیدائش اقبال

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے سوچا کہ کیوں نا دوستوں کی معلومات میں ایک نیا اضافہ کیا جائے-
ماشاءاللہ ہر وال آج اقبال کے اشعار سے بهری ہے-
یہ کہنا مشکل نہیں کہ اقبال کا شاہین آج بهی زندہ ہے-
کچھ دوست یہ شعر لکھتے ہیں-
تند باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے-
اور اس کو علامہ اقبال سے منسوب کرنے پر مصر ہیں-
میرے محترم یہ شعر اقبال کا نہیں ہے-
اس شعر کو کہنے والے سید صادق حسین شاہ مرحوم تهے-
جو کہ تحریک پاکستان کے سر گرم رکن اور قانون دان تهے-
سب شاہینوں کو یوم پیدائش اقبال مبارک ہو-

اقبال کی جامع مسجد قرطبہ میں آمد Visit of Allama Iqbal at Cordoba Masjid, Spain

---------------------------------------------------------------------------------------
قرطبہ کی جامع مسجد کی جہاں کبھی سات سو سال تک مسجد کے میناروں سے آذان کی صدا بلند ہوتی تھی لیکن اب یہاں پر صرف گھنٹیاں اور صلیب دیکھائی دے رہیں ہیں۔
اسپین کے سفر کے دوران جو چیز علامہ اقبال کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنی، وہ مسجدِ قرطبہ تھی اس مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
اقبال نہ صرف اس مسجد کو دیکھنا چاہتے تھے بلکہ یہاں نماز بھی پڑھنا چاہتے تھے، لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ اسپین کے قانون کے مطابق اس مسجد میں‌ اذان دینا اور نماز پڑھنا ممنوع تھا۔
پروفیسر آرنلڈ کی کوشش سے اقبال کو اس شرط کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی اندر سے دروازہ مقفل کر دیں۔
مسجد میں داخل ہوتے ہی اقبال نے اپنی آواز کی پوری قوت کے ساتھ اذان دی "اللہ اکبر، اللہ اکبر"۔
سات سو سال کے طویل عرصے میں‌ یہ پہلی اذان تھی جو مسجد کے در و دیوار سے بلند ہوئی۔
اذان کے فارغ ہونے کے بعد اقبال نے مصلٰی بچھایا اور دو رکعت نماز ادا کی۔
نماز میں آپ پر اس قدر رقت طاری ہو گئی کہ گریہ و زاری برداشت نہ کر سکے اور سجدے کی حالت میں بے ہوش ہو گئے۔
جب آپ ہوش میں آئے تو آنکھوں‌ سے آنسو نکل کہ رخساروں پر سے بہہ رہے تھے اور سکونِ قلب حاصل ہو چکا تھا۔
جب آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو یکایک اشعار کا نزول ہونے لگا، حتٰی کہ پوری دعا اشعار کی صورت میں مانگی۔
اس دعا کے چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی، ایک مری آرزو
تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتش 'اللہ ھو'
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو ، تو ہی مری جستجو
پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر، کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں ، میرے لیے چار سو!
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رو برو

اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود نہ بدلے-

عمر اقبال
-------------------------------------------------------------------------------------------------
پاکستانی معاشرے کا المیہ- 
جیسی عوام ویسے حکمران-
آپکو موٹر میکینک سے لیکر ٹھیکے دار تک-
سبزی والے سے لیکر سرمایہ دار تک-
سرکاری چپڑاسی سے لیکر اعلٰی افسران تک-
اکثریت دو نمبر پیسہ بنانے والے ملیں گے-
ہر بندہ سرکاری نوکری چاہتا ہے- کیونکہ اس میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا اور اوپر کی کمائی بھی ہوتی ہے-
ہر شخص کی نظر اپنے سے اوپر والے پر جمی ہوتی ہے کہ کس طرح میرے پاس بھی ایسی گاڑی یا دولت آجائے-
اسکے لیئے مزید حرام کمانے کی کوششیں تیز کرتا ہے-
اس دوران کسی کی ٹانگیں کھیچتا ہے-
کسی کے سر پر پیر رکھ کر اوپر چڑھتا ہے-
لیکن یہ سب پا کر بھی ڈیپریشن کا مریض رہتا ہے-
تو ان حکمرانوں کا کیا قصور؟
جب عوام میں اور اپنے آپ میں تبدیلی لانے کو کوئی بندہ تیار نہیں-
تو پاکستان میں تبدیلی خاک آئے گی؟
ایک اکیلا عمران خان کیا کچھ تنہا کرے گا؟
ایک بندہ جو اپنی زندگی کا آرام ترک کرکے اس ملک کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہے-
ہمیں بھرپور طریقے سے اسکا ساتھ دینا ہے-
انشاءاللہ 30 نومبر کو عوام نکلیں گے اور آنے والی نسلوں کا مستقبل سنواریں گے-
ہم سب خان صاحب کے ساتھ ہیں-
L

"سارے ہی بے غیرت نیں"

یہ2005 کی بات ہے- جب جدہ کے انڈسٹریل زون الخمرا میں
Hill Metals Est.
کے افتتاح کا فیتہ(ربن)، میاں صاحب اپنے دست مبارک سے چاک فرما رہے تھے-
یہ مل ایک سو پچاس ملین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری سے بنائی گئی تھی-
جوکے پاکستانی ساڑھے چار ارب روپے بنتا ہے- 
افتتاح کت ساتھ ہی میاں صاحب نے دو ہزار ملازمین بھارت سے اور ایک ہزار ملازمین فلپائن سے منگوانے کا حکم نامہ جاری کر دیا-
کسی نے پوچھا، پاکستان سے کتنے؟
تو مابدولت کا جواب موصل ہوا- "ساری ہی بے غیرت نیں"
سب ہی بے غیرت ہیں-

پھر غصہ ٹھنڈا ہونے پر ارشاد فرمایا کہ سعودی عرب میں مقیم خواہشمند پاکستانیوں کو اجازت ہوگی-

میاں صاحب!!! جب آپ نے یہ ارشادات پاکستانیوں کے متعلق فرمائے تھے،،، اس وقت بھی یہ پاکستانی آپ کو دو دفعہ گورنر پنجاب اور دو دفعہ وزیر اعظم پاکستان منتخب کر چکے تھے-
مشرف کا غصہ عوام پر نکالنے کی کیا ضرورت تھی-

ایک بزرگ پاکستانی نے اسی وقت بہت خوبصورت لیکن کڑوا سچ کہا تھا- 

"اگر ہم سب پاکستانی بے غیرت ہیں، تو میاں صاحب آپ ان بے غیرتوں کے دو مرتبہ لیڈر رہ چکے ہیں"

میاں صاحب اس پر بھی برا مان گئے- اور ان بزرگ کو محفل سے باہر نکال دیا گیا-

پھر کچھ سوچ کر واپس بلوایا گیا- لیکن وہ جاچکے تھے-

جس پر مزید پاکستانی بھی میاں صاحب کی محفل سے اٹھ کر چلے گئے-

بچے کھچے چمچے، جو اپنےیا اپنے عزیزوں کے نوکری کیلئے کوائف لیئے کھڑے تھے-انھوں نے میاں صاحب کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیا-

بلکہ ایک خوشامدی نے تو یہاں تک کہہ دیا-

"میاں صاحب آپ ٹھیک فرماتے ہیں،،، سارے ہی بے غیرت نیں"


حکایات سعدی

میری اس پوسٹ کو غیر سیاسی لیا جائے-

درویش کی خود داری
ختن کے بادشاہ نے ایک درویش کی قدر دانی کرتے ہوئے اسے ایک بڑا قیمتی لباس بھیجا۔
وہ لباس لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ آداب بجا لایا۔
بادشاہ کے جو دو سخاکی تعریف کی اور عرض کیا۔
’’اعلیٰ حضرت!کمتر کو بھیجا گیا لباس اس میں شک نہیں کہ بڑا قیمتی ہے لیکن درویش کو اس کا پیوند لگا لبا دہ بڑا عزیز ہے۔
اس کو پہن کر کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا۔ ‘‘
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میںیہ درس دیا ہے کہ خودی بڑی قیمتی چیز ہے اسے دولت نہیںخرید سکتی۔

حرص کی سزا
ایک شخص بڑی غریبی میں زندگی گزار رہا تھا۔ روکھی روٹی بڑی مشکل سے میسر آتی
جسے کبھی وہ پیاز کے ساتھ اور کبھی روکھی سوکھی ہی کھا لیتا۔
ایک دن ایک شخص نے اس سے کہا کہ ارے بھیا!تم بھی نہ جانے کیا شے ہو؟
شاہی لنگر سب کے لیے کھلا ہے۔
ہر روز بھنڈارا بٹتا ہے۔
ایک میلہ لگا ہوتا ہے وہاں تم بھی چلے جایا کرو۔
شاہی پکوان کھایا کرو۔
سوکھی باسی روٹی سے جبڑے زخمی کرنا کیا اچھی بات ہے۔
اس شخص نے ہمدردی کی بات کی تھی۔
غریب آدمی شاہی پکوان کی حرص میں شاہی لنگر خانے پہنچ گیا جہاں بھنڈارا بٹ رہا تھا۔
ایک میلہ سا لگا تھا۔ بھنڈارا لینے والوں میں دھکا پیل ہو رہی تھی۔
خمرے شہدے چھینا جھپٹی کر رہے تھے۔ غریب آدمی اس دھما چوکڑی میں دھنس گیا تو اس کی بڑی درگت بنی۔
کپڑے پھٹ گئے۔ ایک ہاتھ ٹوٹ گیا سانس لینا دشوار ہو گیا۔
بڑی مشکل سے انسانوں کی دلدل سے باہر نکلا۔
اپنے نفس کو کوسنے لگا کہ نامراد کھا لئے شاہی پکوان مزا لے لیا روکھی سوکھی سے منہ موڑ نے کا۔
بدنصیب اب اپنے کئے کی سزا بھگت۔
تیرے ساتھ جو کچھ ہوا اچھا ہوا۔
تیرے جیسوں کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے۔
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے
کہ اپنے گھر کی روکھی سوکھی دال روٹی دوسروں کے شیر مال سے کہیں بہتر ہے۔

 (الحاج محمد حسین گوہر کا مرتبہ ’’حکایات کاانسائیکلو پیڈیا‘‘ سے مقتبس)

"میرے نوجوانو!!!"

میرے نوجوانو"----------------------------------------------تحریر: عمر اقبال


عمران خان اکثر اپنی تقاریر میں جملہ(میرے نوجوانو) استعمال کرتے ہیں-


یہ پاکستان کی وہ نوجوان نسل ہے،،، جو بھٹو کے دور میں بھی پائی جاتی تھی- اور بھٹو صاحب نے بھی اس جوان اور جوشیلے خون کا خوب فائدہ اٹھایا تھا- ضیاء کے دور میں جب امریکہ روس کے خلاف جہاد میں ہماری سرپرستی کرتا  تھا تو بھی یہی، 1970 والی نوجوان نسل بطور مجاہدین استعمال ہوئی-میں خود پاکستان کی تیسری سے نسل ہوں- (1980s کا ماڈل ہوں :) )


آجکل ملک کی دو بڑی جماعتوں میں جو ٹسل چل رہی ہے- اس کا انجام جو ہو سو ہو- لیکن ہم اپنی نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں-
میں خود تحریک انصاف کا اور عمران کا سپورٹر ہوں-
میرے اپنے بزرگ اور بعض دوستوں نے مجھے تحریک انصاف کا حمایتی ہونے کی وجہ سے ان فرینڈ کیا ہوا ہے-
کیونکہ عمر میں چھوٹا ہونے باعث وہ مجھ پر اپنی رائے ٹھونستے ہیں-
جس پر میں نہایت ادب سے اختلاف کرتا ہوں-
اس پر وہ آج بھی مجھ سے شدید برہم ہیں- :)


میرا اپنی ہی جماعت کے ایک جیالے سے مکالمہ ملاحظہ ہو-


' اس سے پہلے کافی گفتگو سنسر کی ہے- جو ہماری تیسری نسل نواز اور عمران کی 'تعریف' میں کہتی ہے- افسوس اس بات پر ہوتا ہے، اچھے خاصے بال بچوں والے لوگ بھی ان بچوں کے ساتھ گالم گلوچ کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں- (کیونکہ فیس بک پر اگلے شخص کی عمر کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے- جنھیں ہمارے حنیف سمانا صاحب فیس بکی دانشور کہتے ہیں- بجا فرماتے ہیں)


اپنے ان لیڈروں کے پیچھے جنھوں نے سوائے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگوانے ہیں-اور الیکشن میں آپکا ایک ٹھپا لگوانا ہے- بس!!!!


کافی لمبی گفتگو  کے بعد موصوف فرمانے لگے-


پی ٹی آئی کا سپورٹر: میرے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے- میں ن-لیگ کے ہر سپورٹر کو گالیاں دوں گا اور ماروں گا-آپ مہربانی کریں اور مجھے نہ سمجھائیں-


میرا جواب ملاحظہ ہو-

بیٹا! آپکے اس کامنٹ کے بعد میرے پاس تین آپشن ہیں-


آپشن 1:- ایک عام شہری کی طرح اپنی ناک سکیڑ لیتا اور دل ہی دل میں کہتا-"توبہ توبہ آجکل کی نسل تو ہے ہی آوارہ گردوں کا ٹولہ،،، کسی بڑے سے بات کرنے کی تمیز نہیں-"خاموشی اختیار کرتا اور اپنا دامن بچا کر چلتا بنتا-


آپشن 2:-کسی بھی سیاسی جماعت کا رکن ہونے کے تحت آپ کی اس سوچ کی حوصلہ افرائی کرتا- اور آپ کو آپ کے ہم خیال نوجوانوں سے ملواتا، آپ کو تمام وہ مواد فراہم کرتا جو دوسری سیاسی جماعت یا فرقے کی زیادہ سے زیادہ بد نامی کا باعث بنے-یا اس جماعت کے عسکری ونگ میں بھیج دیتا-


آپشن 3:-یہ وہ ہے جو میں کرنے جا رہا ہوں- آگے ماننا نا ماننا آپکی مرضی-آپ ایک ذہین طالب علم ہیں- میرٹ پر آپکا نام آنے کے باوجود آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے- بقول آپکے کسی سیاسی جماعت کا طالب علم آپ کی سیٹ لے اڑا ہے- جس کی وجہ سے آپ میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے-آپ نے کہا کہ آپ گالیاں بھی دیں گے اور اس سیاسی جماعت کے ہر سپورٹر کو ماریں گے-


چلیں ایک سیکنڈ کیلئے مان لیتے ہیں کہ آپ صحیح سمت میں جارہے ہیں- اس کا انجام آپ نے سوچا کیا ہوگا-گالیاں دینے سے کسی کا کیا جائے گا؟ آپکی اپنی زبان خراب ہوگی- اور نامہ اعمال میں گناہ لکھے جائیں گے-مرنے مارنے سے آپ اپنی سیاسی جماعت کے گلو بٹ بن جاؤ گے- اور آپ کے لیڈر آپکو ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں گے-برا وقت آنے پر آپ کو تسلی دیں گے کہ گرفتاری دے دو،،،،، آگے ہم سنبھال لیں گے-


کہاں گئی آپ کے والدین کی محنت؟؟ جنھوں نےمزدوری اپنے بچے کو ایک بڑا انسان بنانے کے خواب دیکھے تھے۔ کیا آپ کی والدہ محترمہ یہ بات برداشت کر سکیں گی؟؟ 


آپ کا ایک سال ہی ضائع ہوا ہے- اور اسی پر آپ بندے مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں-میں جانتا ہوں طالب علم کا ایک ایک سال قیمتی ہوتا ہے- والدین اپنا پیٹ کاٹ کر یونیوسٹی کی فیسیں دیتے ہیں، انکی جدوجہد کو آپ اسطرح خاک میں نہ ملائیں-


آپ اڈوب فوٹو شاپ کے ایکسپرٹ ہیں- آپکا سارا دن ن-لیگ کے خلاف کارٹون بنانے میں گزرتا ہے-آپ دو یا تین لوگوں کو آن لائن یا لائیو ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں-اس ایک سال میں فارغ رہنے کی بجائے آپ اپنے اس ہنر سے کچھ پیسے بنا سکتے ہیں تا کہ آپکے والدین کا بوجھ کم ہو-
بجائے سیاسی کارٹونوں اور غیر اخلاقی گفتگو کے آپ کسی بھی آئی ٹی کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب کر سکتے ہیں-
اگر جاب کرنا اچھا نہیں لگتا تو کارڈ، کیلنڈر، یا فوٹو ڈیزائن کا کنٹریکٹ لے سکتے ہیں-ایک سو ایک آپشن ہیں آپ کے پاس،،،،،،،، پھر بھی آپ تشدد کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں بیٹا؟؟؟ (مکالمہ ختم)


جس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہماری موجودہ نسل ہے- پہلے اتنا کبھی نہیں تھی- اس سلسلے میں والدین کو، اور اساتذہ کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا جو آج سے تیس چالیس سال پہلے اساتذہ کرام کا ہوتا تھا-


تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے- کہ جس نوجوان نسل کا وہ یوں بیڑا غرق کر رہے ہیں،،،،، کل کو یہی بپھرے ہوئے نوجوان ان کو کسی ایسی حالت پر بھی لے جا سکتے ہیں- جہاں سے واپسی تقریبا ناممکن ہوگی-