Wednesday, December 24, 2014

افغان مہاجرین کی وطن واپسی، وقت کی اہم ترین ضرورت



افغان مہاجرین کی وطن واپسی، وقت کی اہم ترین ضرورت--------------------------------------تحریر : عمر اقبال
افغانیوں کو اب واپس افغانستان جانا ہوگا-
چالیس سال سے ہماری میزبانیوں کے مزے لے رہے ہیں-
بدلے میں ہمیں کیا دیا؟
کلاشنکوف کلچر
ہماری نوجوان نسل کو ہیروئین اور چرس کا عادی بنایا
اغواء برائے تاوان
خواتین کو ہراساں کرنا
قحبہ گری
اور سب سے بڑهہ کر ‫#‏دہشتگردی‬
جو لوگ مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی بات کرتے ہیں ان کو کان کهول کر سن لینا چاہیے کہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کیلئے جس ملک میں بهی وہ ہجرت کریں، وہاں کے قوانین کا احترام لازم ہے- یہاں آئے روز افغانی باشندے پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات سمگل کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں اور نام پاکستان کا بدنام ہوتا ہے-
Departure of of Afghan immigrants, a must need of the hour--------------------------------------------- written by M.Omer Iqbal
Afghans must leave Pakistan now.
Since 40 years they are enjoying our hospitality.
What they gave Pakistan in return?
AK 47 culture
Drugs like heroin and cocaine
Kids Kidnappings for ransom
Female harresment cases
Prostitution
and the main one is ‪#‎terrorism‬
The people who talk about immigrants rights, must understand that it's the duty of each and every immigrant to respect the laws of residing country. Which Afghans are not following in Pakistan.
They travel on Pakistani passport and smuggle drugs to different countries. Which is a black spot on Pakistan as normally it's assumed that the smuggler is Pakistani.

Monday, December 22, 2014

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟------------------------------تحریر عمر اقبال
جون ایلیا نے شاید یہ شعر اسی دن کیلئے کہا تها-
جو دیکهتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں-
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں-
ابهی تھوڑی دیر پہلے ایک دوست کی وال پر بھارتی اداکار راجیش کهنا اور ایک مشہور ہیروئین کی تصویر دیکھ کر دل یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا سانحہ پشاور کے بعد بهی یہ قوم نہیں سنبھلے گی تو کب سنبھلے گی-
امریکہ 14 سال پہلے9/11 ہوا- اس کے بعد ایک بهی دہشت گردی کا بڑا واقعہ نہ ہوسکا، جس میں اتنے بڑے پیمانے کی تباہی ہو-
2002 سپین کے شہر میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر دھماکے ہوئے اڑھائی سو سے زیادہ افراد جان سے گئے-
لندن میں بهی اسی سال دھماکے ہوئے- اور بهاری نقصان ہوا-
پورے یورپ میں کہرام مچ گیا- یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا- تمام یورپی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور عہد کیا کہ اپنے ممالک میں دہشتگردی کا ایک واقعہ بهی نہیں ہونے دیں گے- آج تک آپ کو 2001 اور 2002 کے بعد کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا نظر آیا؟
سعودی عرب میں 2003 میں خوفناک دہشت گردی ہوئی-2003 کے بعدسے آج تک وہاں کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوا؟
یہی حال ترکی کا ہے- اور آج ترکی میں سیاحت ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گئی ہے- جیسے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہے-
شاید دہشت گرد ان ممالک میں پچھلے بارہ تیرہ سال سے ستو پی کر سو رہے ہیں- اسلیئے ایسا کچھ نہیں ہورها-
شاید انکے عوام نے بهی ہماری طرح "نری دعاؤں" پر گزارہ کیا اور دہشت گردوں کی بندوقیں خراب ہوگئیں- انکے اسلحے کو زنگ لگ گیا- انکی عوام نے اپنے آپ کو کچھ دن کیلئے غمگین کر کے، اور اپنے پروفائل تصویریں کالی کرکے "سب اچها" کا نعرہ لگا دیا- اور دہشت گرد ڈر گئے-
جی نہیں، ہرگز نہیں،
ان تمام ممالک نے دہشت گردی کے سینکڑوں منصوبے ناکام بنائے ہیں- ان ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سکولوں کالجوں کے نصاب میں اپنے بچوں کو سمجھایا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں-
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان تمام حکومتوں کی زیر نگرانی دہشت گردی سے نمٹنے کی عوامی آگاہی مہم میں، تمام عوام کو دہشتگردوں کے خلاف اپنی اپنی حکومتوں کا ساتھ دیتے دیکها ہے-
حکومتوں نے اپنی عوام کو باقاعدہ تعلیم دی اور اربوں
ڈالر خرچ کیئے-
کیا لبرل دہریئے کیا چرچ کے پادری کیا مسجد کے امام، سب ایک سٹیج پر اکٹھے نظر آئے- کسی نے اپنے پوائنٹ سکورنگ کیلئے دوسرے کو ٹانگ نہیں کھینچی-
اب وطن عزیز پاکستان کی طرف آتے ہیں-
"میں "صدقے" میں "قربان-
میرا "سوہنا" پاکستان-
سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے سے لیکر سانحہ پشاور تک- ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹهے ہیں - لیکن عوام اب بهی سنجیدہ نظر نہیں آتی-
کیونکہ ہمارا وطیرہ ہر سرکار سے گلہ ہے-
ہماری خفیہ پولیس کو بهی باہر کے ممالک سے ٹریننگ کی سخت ضرورت ہے-
جبکہ ایک زمانہ تھا باہر کے ممالک ہم سے ٹریننگ لینے آتے تهے-
کسی اور ملک پر اعتماد نہیں تو برادر ملک سعودی عرب سے ہی کچھ سیکھ لیں- جن کا داخلی ڈھانچہ انتہائی مضبوط ہے اور کوئی پرندہ بهی پر نہیں مار سکتا- سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیئے-
ہماری خفیہ پولیس کے صد سالہ پرانے نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیئے-
جب تک عوامی سطح پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ جاری رہے گا- جب کچھ لوگ ایک جانب دوسرے فرقے یا سیاسی جماعت کو ، اپنی پوائنٹ سکورنگ کیلئے دہشت گرد کہیں گے-
اور دوسرے گروہ والے انکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں گے- تب تک امن کا قائم ہونا مشکل ہے-
یہ عوام کا کام ہے اب ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ توڑ دیں، توڑ دیں، توڑ دیں- خدارا ختم کریں یہ الزام تراشیاں-
اور بلا تفریق سب ایک ہوکر اس دہشتگردی کا مقابلہ کریں- کیونکہ عوام ہی کسی ریاست کی اصل طاقت ہے-
اگر اب بهی ہم سب اس سوگ کی فارمیلٹی دکها کر اور چند آنسو بہا اپنے اپنے کام میں جت گئے-
اور "سانوں کی" یا "ہمیں اس سے کیا" کی گردانیں الاپتے رہے تو پهر مزید سانحہ پشاور کی طرح اپنی اور اپنے ننھے پهولوں کی گردنیں کٹانے کو تیار ہوجائیں-
شیر شاہ سوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو دہلی تک جانے سے خوفزدہ تها-
اس نے سرحد پر ایک ہندوستانی کسان کو دیکها اور اس سے پوچھا-
"تمہارے ملک ہندوستان میں جنگ ہورہی ہے- اور تم مزے سے کهیت میں ہل چلا رہے ہو؟"
کسان نے کہا- "ہاں جنگ لگی ہوئی ہے- ہندوستان کا بادشاہ جانے اور اسکا دشمن جانے- مجهے تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے- میرا اس جنگ سے کیا تعلق؟ "
شیر شاہ سوری نے فوراً اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم جاری کردیا-
کہ جس قوم میں سب کچھ حاکم کی ذمہ داری سمجھ کر، صرف اپنا سوچنے والے موجود ہوں، اس قوم کو فتح کرنا مشکل نہیں ہوتا-
جس شیر شاہ کی(کابل سے آسام تک) بنائی ہوئی جرنیلی سڑک ( جی ٹی روڈ) اس بات کہ گواہی دے رہی ہے کہ وہ معمولی سا باغی سردار، ایک مدت تک پورے ہندوستان پر قابض رہا-
اپنے اردگرد کوئی بهی مشکوک شخص یا محلے کے نئے کرائے دار وغیرہ کی جانچ پڑتال ضرور کریں-
پنجابی کا ایک مشہور قول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے، کہ اگر آپکو کوئی مشکل درپیش ہے یا کسی دشمن سے خطرہ ہے تو اپنے گاؤں کے لوگوں سے اسکا اظہار کریں-
اور اگر آپکے گاؤں میں کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تو اپنے گهر کی چهت پر چڑھ کر شور مچا دیں سارا گاؤں اکٹھا ہوجائے گا-
کہ بهائی تمہارا مسئلہ کیا ہے-
اور بات بهی سنے گا-
ڈان نیوز کے مطابق امریکا نے کہا ہے کہ وہ اگر ملا عمر اور دیگر طالبان رہنما امریکا کے لیے براہ راست خطرہ نہ بنے تو آئندہ سال دو جنوری کے بعد امریکی فوج افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔
اب آپ خود اس امریکی بیان سے اندازہ لگا لیں- کہ کس طرح ہمیں دہشت گردی میں دھکیل کر خود صلح کرنے جا رہا ہے-
بخدا اس سوگ کو فارمیلٹی یا رسم نہ بنائیں اور دہشتگردی کے خلاف متحد ہوں- ایسے کئی سوگ پہلے بھی منا چکے- اب متحد ہونے کا وقت ہے- اور ہمارا دشمن نہیں چاہتا کہ ایسا ہو-
اپنے صوبے کی حکومت کی دی گئی تمام ہدایت پر عمل کریں- اور فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کم از کم ایک سال کیلئے بهلا دیں-
اگر یہی اتحاد اگر تین سے پانچ سال تک قائم رہتا ہے تو مذہبی اور سیاسی دوکانداروں کی عوام باآسانی چھٹی کرا دے گی-
فساد پھیلانے والے یا تو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل ہوجائیں گے یا پھر انکا انجام وہی ہوگا جو دہشت گردوں کا ہوتا ہے-
کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں-
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو-
پاکستان زندہ باد-
نوٹ: افغان مہاجرین کا افغانستان انخلا، خیبر پختون خواہ حکومت کا ایک خوش آئند اقدام ہے- چالیس سال سے ہم مستقل مہمان نوازی کر رہے- جبکہ اپنے گھر کے بچوں کیلئے کھانا بھی پورا نہیں پڑ رہا-
جواب میں پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات سمگل کرنے والے افغانی آئے روز مختلف ممالک میں پکڑے جاتے ہیں-


Thursday, December 18, 2014

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)------------------------------------------------- تحریر:عمر اقبال
"تاج دین کیا کھانا کھاؤ گے؟"
جیل کے وارڈن نے کوٹھڑی کا آہنی دروازہ کھولا-
تاج دین نجانے کن خیالوں میں گم تھا- اس دفعہ اُس نے وارڈن کا کھڑے ہوکر استقبال تک نہ کیا- بس ایک ہی جانب گھورے جا رہا تھا- انسان جب اللہ تعالیٰ کی یاد میں مگن ہوتا ہے تو اُس کو دُنیا و مافیہا کی پراہ نہیں رہتی- بشرطیکہ یاد سچے دل سے کی جارہی ہو-
یہی کیفیت اسوقت تاج دین کی تھی-
"مجھے کچھ نہیں چاہیے، تُم مہربانی کرو اور مجھے ایک مُصلٰے لا دو- "
وارڈن کے دل میں پہلی بار رحم آگیا- کیونکہ وہ بھی کسی حد تک جانتا تھا کہ تاج دین قاتل نہیں ہے-
"تُم خوفزدہ نہیں ہو اس سزائے موت سے؟جبکہ تم جانتے ہو کہ بے موت مارے جارہے ہو؟" وارڈن نے سوال پوچھا-
"نہیں میں خوفزدہ نہیں، یہ میرے مکافات عمل کی سزا مل رہی ہے- اور میں بہت خوش ہوں کہ دنیا میں ہی سزا پا رہا ہوں-" تاج دین نے بے رغبتی سے روکھا سا جواب دے دیا-
بھر تاج دین نے سارا واقعہ سنا دیا-
وارڈن نے قہقہ لگایا اور بولا- "اسطرح تو کئی درجن لوگ روزانہ جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دئیے جاتے ہیں- ہماری اندھی گولیوں سے کئی بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں- ہمارے پیٹی بھائی بھی مجبور ہوتے ہیں- آڈر جو ہوا- لیکن ہمیں آڈر دینے والوں کو تو کوئی سزا نہیں ملتی- ایسا کیوں ہے-"
"سزا ملتی ہے-" تاج دین نے جواب دیا- "انکے محلات کے دیوان اور باغیچے اور قلعہ نُما گھر ہوتے ہیں- باہر تین تین سو تمہارے پیٹی بھائی پہرہ دیتے ہیں- لیکن اُنکے دل میں وہ سکون نہیں ہوتا جو اسوقت میرے دل میں ہے- کوئی بیمار ہے اور کوئی اولاد کی وجہ سے بدنام ہے-
کسی کو درجنوں مقدموں کا سامنا ہے اور کوئی اپنے ہی صفوں کے نااہلوں سے پریشان ہے- میں ایک عام آدمی تھا- جس کا فیصلہ جلدی ہوگیا- اور مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں- لیکن میری روح روز قیامت ان حکمرانوں کا حشر ہوتا ضرور دیکھے گی جو روزانہ کی بنیاد پر پولیس مقابلوں، جلوسوں اور دیگر مواقع پر ہزاروں ماؤں کی گود اجاڑے جاتے ہیں-اُنکو سزا ضرور ملے گی- ضرور ملے گی-" وہ اپنے خیالات میں گُم یہ الفاظ دہراتا چلا گیا- اور اُسکو پتہ بھی نہ چل سکا کہ وارڈن کب چلا گیا تھا- اور وہ اکیلا ہی اپنے آپ سے باتیں کیئے جا رہا تھا-
سارا دن گزر گیا مغرب کا وقت آن پہنچا- تاج دین عبادت میں مگن اپنے گناہوں کی معافی میں مصروف تھا-
کال کوٹھری کا دروازہ پھر سے کھل گیا-
"ملاقاتی آئے ہیں-" باہر نکلو-
پورے دو مہینے کے بعد اس آہنی قبر سے باہر نکلا-
وہ جان بوجھ کر ننگے پیر چل رھا رہا تھا- کیونکہ اس زمین کی آخری ٹھنڈک کو محسوس کرنا چاہتا تھا- جیل کی راہداری سے ہوتا ہوا جب ملاقاتیوں سے ملنے جارھا تھا -شام کی سرد ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوا- اُس نے ایک لمبی سانس لی جیسے سارا ہوا کا جھونکا کھا جائے گا- ہوا کے جھونکے کی تازگی کا احساس اسکو اپنے پھپھڑوں کے آخری خلیئے تک محسوس ہوا-
اُسکی حسرت بھری نگاہ جیل میں اگے ہوئے سرسبز پیڑوں پر پڑی، جو شام کی اداسی کے ساتھ ہوا میں جھوم رہے تھے- اور پھر اُن چڑیوں پر نظر ڈالی جو آزاد فضاؤں میں اُڑ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کو جارہیں تھیں- ان چڑیوں کو آرام کرکے ایک ایسی صبح میں جاگنا تھا، جو تاج دین کی زندگی کی آخری صبح تھی- ان آزاد چڑیوں کو دیکھ کر تاج دین خوش ہوا-
لیکن اپنے ہاتھوں پر لگی ہتھکڑی دیکھ کر پھر اُداس ہوگیا-
ملاقات کیلئے اُسکے بھائی بہن، بیوی بچے، بچپن کا جگری دوست نورالٰہی اور اُسکا وکیل آیا تھا-
اُسکا دوست اسکے گلے ملا اور کہا-
"تاجے فکر نہ کر- ہم نے رحم کی پھر سے اپیل کریں گے اور یہ دکیل صاحب بھی،،،،،،،،،،،،،"
"بس کر نُورے!!!! بہت بھاگ دوڑ کر لی تم سب نے- جو ہو رہا ہے ہونے دے-"
نور الٰہی بھڑک اُٹھا،"تُو پاگل ہوگیا ہے کیا؟ یہ پھانسی کی سزا ہوئی ہے پھانسی کی- جان چلی جاتی ہے اس میں- اور بندہ واپس نہیں آتا- اسکو کو سمجھاؤ وکیل صاب- یہ پاگل ہوگیا ہے-"
وکیل نے بولنا چاہا لیکن تاج دین نے روک دیا-
بیوی بچوں، بہن بھائیوں کو اندر بلا لیا گیا- بھائی ، بہنیں اس سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے- بیٹیاں الگ سے بے حال تھیں، شریک حیات چادر میں منہ چھپائے آنسو بہا رہی تھی-
تاج دین نے فردا، فردا سب کو دلاسہ دیا- اپنے بھائیوں سے اپنی اولاد کا خیال رکھنے کو کہا- شریک حیات کو بھی تسلی دی –
ملاقات کا وقت ختم ہوگیا- اور تاج دین واپس کال کوٹھری میں آگیا-
"ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا-" وارڈن نے تاج دین کو کہا-
تاج دین حیران رہ گیا اور بس اتنا کہہ سکا- "پولیس والے کی آنکھوں میں آنسو----------؟؟"
"کیوں؟ ہم پولیس والے انسان نہیں؟ ہمارا دل نہیں؟ یہ تو اُن بھیڑیوں کے حُکم کی زنجیر بندھی ہوئی ہے ہمارے پیروں میں- ورنہ ہم لوگ بھی عوام ہیں- اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا-"
"معافی کس بات کی مانگ رہے ہو؟" تاج دین نے سوال داغا-
"معافی میں اس بات کی مانگ رھا ہوں ، کہ تمہارے مکافات عمل کے فلسفے کو سمجھنے میں دیر کردی- اور قہقہہ لگا دیا تھا- بس اُس کی معافی چاہتا ہوں-
میری آنکھوں میں آنسو تمہارے بچوں کو دیکھ کر آگئے- کہ کس طرح بیٹیاں باپ کی محبت میں تڑپ رہیں تھیں اور کس طرح سے ایک بے بس بیوی اپنے شوہر کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہی تھی-
ایک بہن اپنے بھائی کی پھانسی کی خبر سُن کر کس طرح چیخ چیخ کر فریاد کر رہی تھی- اور بھائی بھی چپکے چپکے رو رہے تھے لیکن تمہیں اور بچوںاور خواتین کو تسلیاں دے رہے تھے- ایک طرف بچپن کا دوست بے حس وحرکت بُت بن کر کھڑا تھا- اور اپنے دوست کو موت کے منہ سے بچانے کیلئے آج بھی پُر اُمید تھا-"
تاج دین مسکرا دیا جبکہ وارڈن بولتا جا رہا تھا- شاید یہ کسی آخری انسان سے تاج دین کا طویل مکالمہ تھا-
وارڈن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ- "میرا افسر بھی بہت بڑا رشوت خور تھا- رشوت کی کمائی سے اپنی اولاد کو جوان کیا- بیرون ملک دورے، کمیشن، ٹھیکے سب کاموں میں برابر کا حصے دار تھا- بلا کا ذہین تھا- اسی لیئے ترقی کرتا کرتا کہاں سے کہاں پہنچ گیا- کہنے کو ایک معمولی تھانیدار بھرتی ہوا تھا، اور پھر ایک بڑا افسر بن کر ریٹائر ہوا- وہ جب مرا تو میں بھی اسکے جنازے میں شرکت کیلئے گیا-
افسر کی میت سامنے پڑی تھی اور بیٹے جائیداد کا جھگڑا کر رہے تھے- اور ہم لوگ ان بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ باپ کی میت پہلے قبر میں تو اُتار لو ، پھر یہ جھگڑے کرتے رہنا- لیکن یہ تو ہم بھی، اندر سے جانتے تھے کہ وہ کتنا کرپٹ افسر تھا- پس اُسی دن سے میں نے رشوت سے توبہ کی اور اپنی ڈیوٹی بدلنے کی درخواست کردی- لوگ حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ احمق ترین انسان ہے- زیادہ پیسے سے کم پیسے کی طرف جا رھا ہے- لیکن میں مطمئن تھا- کیونکہ ایک رشوت خور کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا- یہ اُسکی مکافات عمل تھی جس کا عذاب دُنیا سے ہی شُروع ہوگیا تھا-"
وارڈن چلا گیا اور تاج دین کو گہری سوچ میں چھوڑ گیا- وہ سوچ رہا تھا- کہ اُسکا جرم ایک بھینس کے بچے کو مارنا تھا- اور اُس بچے کی مجبور بے کس ماں کی بددعا، اُسے لگ گئی- یقینا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے- اُس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور تخت نشینوں کو اُنکا حساب مل کر رہے گا- چند سکوں کی خاطر ملک وقوم کا سودا کرنے والے کہاں تک وسیع و عریض محلات میں رہیں گے؟
کہنے کو تو جہانگیر بادشاہ اور اسکی بیوی نورجہاں بھی اعلیٰ محلات میں رہتے تھے- دارا اور سکندر کی بھی ان موجودہ حکمرانوں سے ہزار گنا اُونچی شان تھی- آخر میں ان کی قبروں کے نشان تک نا بچے- سب مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے- تاریخ کے صفحات نے انکے خوشامدیوں اور درباریوں کو دو سطریں دینا بھی گورا نہ کیں-یہ تو اپنے آقاؤں کے سامنے جھکتے ہیں- اور اُن بادشاہوں کے ماتحت کتنی سلطنتوں کے بادشاہ تھے، جو اُن کے سامنے جُھکتے تھے-
اگلی صبح تاج دین کو پھانسی ہوگئی- اور اس دن، تاج دین کا نام، اخبار کی ایک چھوٹی سی سرخی کی زینت بنا- اُسکا نام بھی اُسکے مرنے کے بعد اخبار میں آسکا-
وطن عزیز جس ظلم و بربریت کے دور سے گزر رہا ہے- اور جس طرح نا انصافیوں کا دور دورہ ہے-جس طرح سے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا- اور جو کچھ 31اگست کو حکومت کی دہشت گردی کا نمونہ ہم نے دیکھا- یا فیصل آباد میں کالعدم تنطیموں کے کارکنوں سے اور سول وردی میں ملبوس پولیس والوں سے جو قتل عام کروایا گیا- اسکی مثال بہت کم ملتی ہے- قاتل کے ہم شکلوں کو میڈیا کے سامنے بٹھا کر معاملہ رفع دفع نہیں کیا جاسکتا-
مسئلہ صرف چار حلقوں کا تھا- جو اب خود میاں صاحب کے گلے کا حلقہ بن گئے ہیں-
فرعون کو بھی اللہ نے تب تک معاف کیئے رکھا تھا، جب تک وہ انصاف کرتا تھا- حالانکہ خدائی دعوٰی کرنے والا اللہ کے سخت ترین عذاب کی پکڑ میں آتا ہے- پر فرعون کو، اُسکے انصاف کی دجہ ہے ڈھیل ملتی رہی- جو سیدنا موسٰی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ختم ہوگئی اور فرعون غرق ہوا-
موجودہ دور فرعونیت کے تخت نشین ، اس بات کو سمجھنے سے عاری ہیں- کیونکہ جب اللہ کسی کو ذلیل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، تو اُس سے غلطیاں کرواتا ہے-
ریکوڈک کے منصوبے پر کئی عوامی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور 11دسمبر 2014 کو، چُپکے چُپکے جاکر معاہدہ کیا جا رہا ہے- جس میں یہودیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے لایا جا رھا ہے- تحریک انصاف پر یہودی لابی کے الزامات لگانے والے خود اُن یہودیوں کے بُوٹ کی ٹوہ چاٹ رہے ہیں- اور سونے کی کان کنی کے ٹھیکے (بشمول اپنے کمیشن) یہودی کمپنی کو دیئے جا رہے ہیں- ایسی آمرانہ جمہوریت سے ہمیشہ ملک خسارے میں رہے گا- یہ کان کنی کوئی راکٹ سائنس نہیں، پاکستان کے باشندے دُنیا بھر میں اس پیشے سے وانستہ ہیں- ام کو واپس بلا کر اس شعبے میں کھپایا جاسکتا ہے- کتنے ذہین افراد بے روز گار بیٹھے ہوئے ہیں- انکو کو ٹریننگ دے کر ایک باعزت روزگار ریا جاسکتا ہے-
لیکن یہان مُلک کی عوام کی کون "بیوقوف" سوچ رھا ہے- یہاں تو بس اپنی جیبیں بھرنے کی پڑی ہوئی ہے-
پاکستان کی مثال اُس کسان کی سی ہے، جسکو پتا چلتا ہے کہ اُسکے کھیت کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے- اور وہ گاؤں کے ظالم وڈیرے کو اسکی خبر کردیتا ہے- اور وڈیرا اسکی زمین خرید کر اُسکو چند سکے تھما دیتا ہے-
اور کسان خوشی خوشی ناچتا ہوا ، اپنے گھر چلا جاتا ہے-اور اپنے بیوی بچوں سے کہتا، "دیکھو ، دیکھو وڈیرے نے مجھے امداد دی ہے- "
اور معصوم بچے "ابّا زندہ باد!" کے نعرے لگاتے ہیں-
مشکل وقت میں ہمارے حکمرانوں نے اپنا سامان اُٹھانا ہے اور کسی باہر کے مُلک بھاگ جانا ہے- اور ہم عوام اور ہماری نسلیں ان کے قرضے اتارتے اتارتے کمر توڑ بیٹھیں گے-
کہاں تک بھاگیں گے یہ لوگ، کب تک بھاگیں گے- اور کتنا جھوٹ بولیں گے؟
جبکہ قدرت کا فیصلہ آچکا ہے- اور ان کی مکافات عمل شروع ہوچکی ہے-


مامتا(2)-------------------------------------------------------عمر اقبال


مامتا(2)-------------------------------------------------------عمر اقبال
جس وقت دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہوئے تھے- اسوقت انھوں نے فوجیوں کے بچوں کو الگ کرکے شہید کرنا شروع کردیا-
اسی دوران ایک اور ماں ان بچوں کے اور دہشت گردوں کے درمیان حائل ہوگئی-
دہشت گردوں نے اس ماں پر تیل چھڑک کر بچوں کے سامنے آگ لگا دی- 
ماں نے اپنی جان دے دی لیکن اپنے جیتے جی اپنے بیٹوں پر گولی نہیں چلنے دی-
اسی طرح ایک ماں تیس بچوں کو لے ایک کمرے میں چھپ گئی- اسکے اپنے دو بچے باہر ہی رہ گئے- ماں نے اپنے دو بچوں کیلئے ان تیس بچوں کو چھوڑنا گورا نہ کیا- اور بچون کو یہی دلاسے دیتی رہی کہ یہ صرف کوئی ڈرل یا ٹرییننگ کا حصہ ہے-
یہاں تک کہ فوجی آئے اور ان تیس بچوں اور اس عظیم ماں کو باحفاظت باہر نکال کر لے گئے-
وطن کی ان عظیم ماؤں کو وطن کے بیٹوں کا سلام-

مامتا(سانحہ پشاور)---------------------------------------عمر اقبال



مامتا---------------------------------------عمر اقبال
"أو بی بی تو یہاں کیسے آگئی؟ دیکھتی نہیں ہم فوجیوں تک نے بلٹ پروف جیکٹیں پہنی ہیں- آگے گولیاں چل رہیں ہیں-"
مامتا کی ماری مجبور ماں، جب ہر طرف افراتفری کا عالم تها- بے ساختہ بھاگتی بھاگتی اگلے مورچوں تک پہنچ گئی تهی -
پهر فوجی جوان نے بیک سپورٹ پر وائرلیس پیغام بهیجا- "سر ایک عورت نو گو ایریا میں آگئی ہے- کسی جوان کو بهیج کر اسے واپس پیچھے لے جائیں- اوور"
ماں جوانوں نے کہنے لگی- " بهائیو! مجهے آگے جانے دو- میرا بچہ اکیلا ہے- مجهے پکار رها ہوگا-"
جہاں جوان تربیت یافتہ کمانڈوز جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے نبرد آزما تهے- کل وهاں اگلے مورچوں پر ایک نہتی ماں بهی موجود تهی- جو نجانے کیسے اگلے مورچوں تک پہنچ گئی اور مزید آگے جانے پر بار بار اصرار کرتی رہی- 

سانحہ پشاور کے قاتل کون؟ - - - - - - - - - - تحریر: عمر اقبال



سانحہ پشاور کے قاتل کون؟ - - - - - - - - - - تحریر: عمر اقبال
جدهر آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے بھارتی کرنسی ملی-
وہیں 2007 سے 2008 میں طالبان کی شکل میں ہندو گو رکها فائٹرز بهی بهی ملے تهے- جن کے مرنے کے بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں-
اسی طرح چند سال پہلے پشاور کے نواحی قصبے میں ایک ہندو امام مسجد پکڑا گیا تھا-
جو پچھلے بیس سال سے امامت کروا رها تها-
طالبان پر خرچ کرنے والے بهارت اور امریکہ کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستانی قوم سو نہیں رہی-
أن ممالک کیلئے مستقل خطرہ پاک فوج کا ادارہ ہے-
لہٰذا لفافہ لبرل فاشٹ جو آئے روز میڈیا پر فوج کے خلاف بولتے ہیں یا بریف کیسوں والے انتہاء پسند ملا، جن کی اپنی اولادیں لندن امریکہ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں- اور وہ عوام کے معصوم بچوں کو نام نہاد جہاد کیلئے برین واشنگ کرتے ہیں، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں-
کیونکہ دونوں فوج کیخلاف زہر اگلتے ہیں-
سی این این کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق-
۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول پشاور حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔واضح رہے کہ اجیت دوول بھارتی انٹیلی جنس کے افسر ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی کے طور پر 30 مئی 2014 سے اپنی ذمہ داریاں انجام دہ رہے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اپنے کھلے اور خفیہ دشمنوں کی پہچان ہوگئی ہے-
آج طالبان نے عوام کو تمام فوجی سکولوں اور دیگر فوجی تنصیبات سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے-
تم ہوتے کون ہو ہمیں دور یا قریب رہنے کا مشورہ دینے والے؟
ہم جانتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے- تمہاری انتہاء پسند سوچ کی ہمیں ضرورت نہیں-
جس کو تم لوگ ناپاک آرمی کہتے ہو، اصل میں تم لوگ اور تمہارے حمایتی خود نجاسات کا لشکر ہیں-
عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں-

Thursday, December 4, 2014

ہ دنیا مکافات عمل ہے------------------------------------- تحریر: عُمراقبال

یہ دنیا مکافات عمل ہے- ------------------------------------ تحریر عمر اقبال
جیل کی سزائے موت کی کال کوٹھری تهی-
خوفناک سناٹا تها- زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
باہر شاید بارش ہورہی ہے-
اسکے پتھرائے ہوئے دماغ میں خیال گزرا-
کیونکہ بادلوں کی ہلکی ہلکی گرج خوفناک سناٹے کو چیر رہی تھی-
لیکن انکی چمک ، بارش کی ہلکی پھوہار اور ٹھنڈی ہوا کے تازہ ترین جھونکوں سے محروم تها-
آج اسے محسوس ہوا کہ بارش کتنی بڑی نعمت ہے-
کال کوٹھری کا کھانا بهی تو آج رات نہ آسکا-
"کهانا نہیں ملے گا آج ! پتہ نہیں کیا ہوا؟ شاید بارش کی وجہ سے گاڑی دیر سے پہنچے گی-"
جیل کے سنتری نے فولادی دروازے پر لگی چهوٹی سی کھڑکی کهول کر اسے بتا دیا اور کھڑکی بند کر دی-
اسکو کهانا نا ملنے کا کوئی غم نہیں تها- لیکن پانچ دن بعد ایک انسانی آواز جو اس سے مخاطب تهی، اسکے سننے کی خوشی تهی- کیونکہ وارڈن بغیر کچھ کہے کھانا آہنی دروازے کے نیچے سے سرکا دیتا تها-
"بهائی میری بات تو سنو-" وہ تڑپ کر اٹھا- میرے سے دو باتیں تو کرلو-
لیکن کال کوٹھری کا وارڈن کب کا جا چکا تها-
پهر سے بس ایک وہ تها اور وہ کالی قبر تهی-
آنسوؤں کی لڑی نجانے کب سے بہہ رہی تھی- اور رکنے کا نام نہ لیتی تهی-
"یا اللہ! میں سزائے موت کا مجرم کیسے؟" اپنے رب سے اسکا ایک ہی سوال تها-
"میں نے تو تیرے بندوں پر کبهی ظلم نہیں کیا تها-
چونسٹھ سال کی عمر کا کمزور آدمی کیسے اور کس کا قاتل ہوسکتا ہے؟ اے رب ذوالجلال تو جانتا ہے میں بے گناہ ہوں-"
اپنے رب سے باتیں کرتا، نجانے کب نیند کی وادیوں میں کهو گیا-
خواب بهی تو اسکو ڈراونے آرہے تهے-
کبهی اپنے آپ کو تختہ دار پر جھولتے دیکھتا اور کبهی جلاد کو اپنا چہرہ ڈھانپتے دیکهتا-
خواب میں کیا دیکها کہ ہندوستان کی تقسیم ہو رہی ہے-
ہندوؤں کے قافلے بھارت جا رہے ہیں-
اور مسلمان پاکستان آرہے ہیں-
کشت و خون کی لڑائی جاری ہے- لیکن اسکو کوئی پرواہ نہیں-
کڑیل جوان اور مضبوط جسم کا مالک روزانہ گهر سے نکل پڑتا ہے- اور دیکهتا ہے کہ ہندوؤں کی چهوڑی ہوئی کسی چیز کو اچک لے- ایک آواز آتی ہے
" یہ تیری کمائی کے دن تهے- تُوچور جو ٹھہرا اپنے علاقے کا-"
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- یوں محسوس ہورها تها جیسے آواز بہت قریب سے آئی ہے-
وہ واقعی ایک چور تها- لیکن بعد میں چوری سے تائب ہوکر کوئی کام شروع کردیا تھا-
اسکو یاد آیا کہ ایک ہندو قافلہ اپنی بهینس کو ایک درخت سے باندھ کر چھوڑ گیا تها-
کیونکہ بهینس درد زہ کی وجہ سے ، بہت آہستہ چل رہی تهی –اور قافلے والوں کو جان کا خطرہ تھا- اسلئیے بھینس کو چھوڑ گئے-
جب یہ اس درخت تک پہنچا تو بهینس کا بچہ ہوچکا تها- اور چند گھنٹوں کا تها-
اسنے بهینس کی درخت سے رسی کھولی اور چلتا بنا-
بچہ بهی ماں کےساتھ ساتھ ہولیا-
اسنے دیکها کہ بهینس بچے کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی ہے- اور مڑ مڑ کر اسکے ساتھ ملنے کا انتظار کرتی ہے-
چور کو بهینس بیچنے کی جلدی تھی اور بچہ اسمیں رکاوٹ تها- اس نے بندوق نکالی اور بهینس کے بچے پر فائر کر دیا- بچھڑا تڑپ تڑپ کر مرگیا-
بهینس نے آسمان کی جانب سر اٹھایا اور پهر جهکا دیا- چور نے منڈی لے جاکر بهینس کو بیچ دیا- اور سستی سی زرعی زمین لے لی-
کهیتی باڑی سے اس کے دن پهر گئے –
شادی ہوگئی بچے ہوگئے- وقت بہت اچها گزر رها تها کہ اچانک گاءوں کا ایک بااثر آدمی قتل ہوگیا اور الزام اس پر آگیا-
کال کوٹھڑی کا فولادی دروازہ دلخراش چرچراہٹ کے ساتھ کهلا-
اس کی سوچوں کا تسلسل یکایک ٹوٹ گیا-
جیل سپرنٹنڈنٹ اسکی کی کوٹھڑی میں داخل ہوا-
"میاں تاج دین ولد میاں رحمت دین! کل تمہیں فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے، پھانسی دے دی جائے گی- اپنی آخری خواہش بتا دو- آخری کھانا کیا کھانا چاہتے ہو وہ بهی بتا دو- کل تہجد کے وقت وارڈن تمہیں گرم پانی کی بالٹی دے گا-
آخری غسل کرلینا اور وارڈن کو اپنے وارثوں کے نام لکهوا دو جن سے تم آخری ملاقات کرنا چاہتے ہو-"
تاج دین ہکا بکا رہ گیا-
قدرت کے انتقام کی گهڑی آن پہنچی تهی-
اور اسکو اسکے شکوے کا جواب بهی مل گیا تھا-
کہ کس طرح اس نے ایک کمزور بے کس معصوم کی جان لی تهی- اور اسکی دکهی مظلوم ماں کی آہ آج اسے تختہ دار پر لٹکا رہی تھی-
پهر وہی خوفناک سناٹا تھا-
زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
مال روڈ کے نابینا معذوروں کی آہ امراء کے در و دیوان ہلا دینے کیلئے کافی ہے-
قدرت اپنا حساب پورا ضرور کرتی ہے- اس کے هاں دیر ہے- اندھیر نہیں-
کیونکہ یہ دُنیا مکافات عمل ہے-

Thursday, November 20, 2014

چلو چلو عمران کے ساتھ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, تحریر: عُمر اقبال

خان کو یو ٹرن لینے والا کہنے والے آج خود اپنے ہی کیئے گئے وعدوں سے مُکرے ہوئے ہیں-
جن کو الیکشن سے پہلے وعدے اور الیکشن کے بعد جوش خطابت کا نام دیا گیا تھا-
ان میں کسی شخصیت کا سڑکوں سے گھسیٹنا، لُوٹی ہوئی دولت واپس لانا، بُلٹ ٹرین کا منصوبہ اور چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ شامل ہیں- لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی کو فرصت کہاں، جہاں عوام اپنے حق کیلئے جاگ اُٹھی ہو، وہاں پر کام کرکے دکھانا ہوتا ہے- نری باتوں سے کام نہیں چلتا-
مجھے ترس آتا ہے ان لفافہ لکھاریوں پر بھی جو اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت میاں اور میاں کی ٹوڈی کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے-
بعض نے تو میاں کی ٹوڈی کو اگلا وزیر اعظم تک مان لیا ہے-
انکے پاس سوائے عمران کی ذاتیات کے اور کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا- جبکہ وہ بذات خود اچھی طرح جانتے ہیں، کہ انکے اپنے ناخدا ؛ ذاتی زندگیوں کے تعلق سے ؛ خود کتنے پانی میں کھڑے ہیں-
فیس بُکی دانشور اپنی ریٹنگ کے چکر میں عجیب عجیب فحش الفاظ سے لوگوں کو عارضی طور پر محظوظ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جو کے فقط ایک پانی کا بلبلہ ہیں-
اُدھر ٹویٹر کی نام نہاد شہزادی صاحبہ ؛ اپنی سربراہی میں کام کرنے والی سوشل میڈیا ٹیم بقول معروف صحافی، سُہیل وڑائچ، چن چن کر ان صحافیوں کو گالیاں دلواتی ہے، جو عمران کے خلاف ٹی وی پر بولتے ہیں- یہ لوگ اپنے آپ کو تحریک انصاف کا کارکن ظاہر کرتے ہیں-
اور اسی شہزادی کی ایماء پرعمران خان کے مرحوم والد اکرام اللہ خان نیازی کو منہ بھر بھر کرگالیاں اور انکی توہین کی جارہی ہے-
اب میاں محمد شریف صاحب بھی مرحوم ہیں- اور خان صاحب سے اپنے کارکنوں کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ کسی مرحوم شخص کے بارے میں کوئی الزام تراشی نہیں کرنی- وگرنہ
بقول مومنؔ
؎
ہمیں سب یاد ہے ذرا ذرا-
تمہیں یاد ہو کے نہ یاد ہو-
اللہ ان دونوں مرحومین کی مغفرت فرمائے- اور محمد شریف مرحوم کی اولاد کو ہدایت نصیب فرمائے- آمین
جتنا سرمایہ دارنہ نظام (کیپٹل ازم)کے حق میں اور اداروں کو قومی تحویل(نیشنل ازم) میں دینے کی مخالفت اس شریف خاندان نے کی ہے- شاید ہی ملک میں اسکی مثال مل سکے-
یہی وجہ شریف خاندان کی بھٹو خاندان سے دشمنی ٹھہری تھی، جو بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی انکو معاف نہ کرسکی- کیونکہ جب تک میاں محمد شریف مرحوم، حیات تھے- نوازشریف کی تمام پالیسیاں "اباجی" کے فیصلوں کی مرہون منت ہوتیں تھیں-
جس پر پیپلز پارٹی کے ارکان و لیڈران پھبتیاں بھی کستے تھے-
اس موضوع پر بھی انشاءاللہ پوری ایک تحریر لکھوں گا-
بات لمبی ہوتی جارہی ہے اب اصل موضوع کی جانب آتا ہوں-
خان صاحب ہمارے لیئے کھڑے ہیں- ایک بندہ ہمارے لئیے ہی کنٹینر پر گرمی سردی برداشت کررہا ہے-
وہ کوئی جاگیردار یاسرمایہ دار نہیں- نا ہی بیرون ملک اثاثوں کا مالک-
ہم عوام ہی اس شخص کی طاقت ہیں- اس ملک کی طاقت ہیں- ایک اکیلا انسان اس ملک کو نہیں بدل سکتا-
لہٰذا فیس بک ٹویٹرکے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بهی آگے آنے کی ضرورت ہے-
یہ 30 نومبر کا دن روز روز نہیں آئیگا-اور اگر اب کی بار اس کرپٹ نظام کو شکست دینے میں ناکام ہوگئے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی-
خدارا اس ملک کیلئے سوچئے-کرپٹ نظام کی تبدیلی ہم عوام سے ہے-
خان عزت ، دولت یا شہرت کا بھوکا نہیں-
خان صاحب کا نام کرکٹ نے بهی رہتی دنیا تک روشن کر دیا ہے-شوکت خانم ہسپتال میں بهی انکو کروڑوں غریبوں کی دعائیں ہیں-
خان صاحب کی جگہ، اگر ہم آپ ہوتے تو شاید آج انگلینڈ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آرام سے زندگی گزارتے-
یا کسی ملک کی کرکٹ ٹیم کے کوچ ہوتے- یا لیڈر شپ پر ، یورپی یونیورسٹیز میں لیکچر دے رہے ہوتے اور دنوں میں کروڑں کا مال بناتے-
لیکن اس انمول دیوانے کو اپنی احسان فراموش قوم ، کا درد لے بیٹھا ہے- کیا ضرورت تھی قوم کو جگانے کی اور یہ دھرنے کی؟
جو لوگ پہلے کہتے تھے کہ یہ دھرنہ ایک ہیجانی کیفت ہے- اور بیرون ملک سے پیسہ آ رہا ہے- آج وہی لوگ اپنے بیانوں سے یوٹرن لے کر کہتے ہیں کہ استعفی مانگنے والے آجکل چندہ مانگنے پہ آ گئے ہیں-
خان اکیلا کھڑا ہے اس نظام کو صحیح کرنے کیلئے- آج سب 'اسٹیٹس کو 'کے مخافظ ایک ہیں- اس دیوانے ملنگ کو اکیلا چھوڑنا اسکے ساتھ نہیں بلکہ اس دھرتی ماں ، پاکستان ، کے ساتھ سراسر زیادتی ہے –
خان کا کچھ نہیں بگڑنے والا –
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ خان عزت ، دولت یا شہرت کا بھوکا نہیں- اب تو چائینہ جیسے دوست ملک نے بھی آئرن برادران کی اصطلاح متعارف کرا دی ہے- عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے- اگر عوام "آئرن برادرز" کی اصطلاھ سمجھ جائے تو-
ہمارا اپنا مستقبل تباہ ہوجائے گا-
ہم پھر سے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کرپٹ نظام کے غلام ہوجائیں گے-
جہاں گلو بٹوں کا راج ہوگا اور ہم عوام قربانی کے بکرے بن کر ان بڑی توندوں والے بھتہ خوروں ، پٹواریوں اور چوروں، ڈاکوؤں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے ہونگے-
لہذٰہ اب نکل پڑو اس نظام کی تبدیلی کیلئے- اور بدل دو اپنے ملک کی تقدیر-
بندہ ایک قدم اُٹھائے تو اللہ آگے دس راستے کھول دیتا ہے-
پاکستان کے بیٹو اور بیٹیو! !!!!!!!!!!آپ کوپہلا قدم بڑھانا ہوگا-
لے آؤ اس ملک میں اُجالا ، جس پاکستان کا خواب ہمارے پیارے قائد اعظم نے دیکھا تھا- چلو چلو عمران کے ساتھ-

Wednesday, November 19, 2014

نادان

یہ نادان سمجھتے ہیں کہ ہم ایک حادثے کی بنیاد پر پروپیگنڈے کا گرد وغبار اڑاکر سورج کا راستہ بند کردیں گے ، مگر نہیں جانتے کہ سورج کسی گرد وغبار سے تھوڑا گھبراتا ہے ،
انسانوں کے دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں اور اللہ جس طرف چاہے اسے پھیر دیتا ہے ،
پاکستانی عوام کے دل عمران خان کی محبت سے لبریز ہیں تمہارا ظالمانہ پروپیگنڈہ ان دلوں کو اس فدائے ملت کی جانب سے پھیر نہیں سکتا ،
کیونکہ پاکستان کے عوام سمجھ چکے ہیں کہ یہی ہے وہ انسان جو ان کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے جس نے اپنی ساری خوشیاں اور ساری راحتیں اپنی قوم کی حالت سدھارنے کےلئے قربان کردی ہیں-
 
L

قصہ ساڑھے چہار درویش، لالہ صحرائی جی کے قلم سے-

ہمارے محترم ظفر جی نے قصہ چہار درویش لکھا-
جس میں انهوں نے خان صاحب، قادری صاحب، شیخ رشید اور شاہ محمود کے لتے لئیے ہیں-
اس تحریر کے بعد پی ٹی آئی کے اہل قلم بهی قلم اٹھانے پر مجبور ہوئے اور قصہ ساڑھے چہار درویش زیب قرطاس کیا-
فدوی ادب کی دنیا کا ایک نالائق ترین طالب علم ہے-
ظفر جی کا قصہ چہار درویش
اور لالہ جی کا جواب قصہ ساڑھے چار درویش پڑھ کر دل کو تسلی سی ہوئی کہ مملکت خداداد کے بیٹوں میں ادب کا ذوق باقی ہے- اور غم بهی ہوا کہ یہ ادبی صلاحیت بدذوق سیاستدانوں کی نذر ہوئی جا رہی ہے-
میری دونوں نوجوان لکھاریوں سے اپیل ہے نوجوان نسل کے سدهار کیلئے اپنے أقلام کو جنبش دیجئے- اور ایک ایک غیر سیاسی تحریر لکھ کر ہمیں بہرہ مند فرمائیں-
اس تحریر کا مقصد سیکھنا ہے- کسی لکهاری کی ذاتی توہین نہیں-
ملاحظہ فرمائیں ظفر جی کے قصہ چہار درویش کا مدلل جواب لالہ جی کے قلم سے:
قصہ ساڑھے چار درویش (حصہ دوئم)
تحریر لالہ صحرائی:
--------------------------------------------------------------
حصہ دوئیم
کتھا پہلے درویش کی
پہلا درویش کہ یکتا توڑ جوڑ میں تھا، واسطے اپنی چالاکیوں کے بہت مشہور اور معتبر گردانا گیا زمانے بھر کا تھا، سارے درویش اس کو درویش اعظم بھی مانتے تھے اپنی بتیسی نکال کر ھنسا اور گویا ھوا
ھیھیھیھی شناتا ھوں بھائیو شناتا ھوں
پھر دو زانو ہو بیٹھا اور اپنی سیر کا قصہ اس طرح سے کہنے لگا
متوجہ ہو کر سنو اے ساکنان بزم
ماجرا اس بے سروپا کا سنو اور انصاف کیجیو زرا
" یا اللہ یا معبود میں تو ٹھہرا بے قصور"
میں سردار خطہء بھٹائی کا ھوں، پیشہء آباء میرا زمینداری اور سیاست میں بھی راہداری تھی، میں ایک دن باغ میں اپنے گھوڑے کو مربہ بادام کشمش اور شٹالہ کھلا رھا تھا کہ ایک بادشاہ زادی جو ملک فرنگ سے پڑھ کر آئی تھی، ایک نظر اس کی مجھ پر پڑی اور پتا نہیں کیا ادا پسند آئی کہ میں اسے بھاء گیا، واسطے نکاح کے پیغام اس کا سن کر ٹھکانہ خوشی کا نہ تھا، بعد عقد کے جس سے مجھے ایک بیٹا ملا جو مقصد تعلیم کے ملک فرنگ بھیجا
آج وھی لڑکا واپس آکر جب کہتا ھے "زندہ ھے مرد زندہ ھے" تو لوگ اس کی لچک دیکھ کر ھنستے ھیں، یہ میری زندگی میں تیسرا بڑا جھٹکا تھا، پہلا اس وقت لگا جب یہ سامنے بیٹھا بھینس نما دوسرا درویش، دو نمبر کا درویش زرا سی چشمک میں مجھے سالہا سال کے لئے قید خانے میں ڈال گیا تھا
دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب میری زوجہء اقدس کو بیچ راہ کے شہید کر دیا، میں غم سے نڈھال کوہِ گراں اٹھائے کھڑا تھا لیکن پھر میں نے حوصلہ کر کے اس قاتل کو سلام کیا کہ اس نے مجھے وعدہ راج گدی دینے کا کیا تھا، بادشاہ بن کر بھی مجھے سکون تھا نہ چین تھا، بیوی کے غم میں کچھ کھاتا تھا نہ پیتا، دبلا بلا کا ھو چکا تھا کہ ایک پیر مرد نے کہا اسے کھانے کی ھر چیز دکھاؤ جو کھانے کا من کرے وہ اسے جی بھر کر کھانے دو
بعد اس تجویز کے میرے سامنے دنیا بھر کا نعمت کدہ معہ خزانہ قوم کا کیا تو میں نے اسے کھانا شروع کر دیا
ھیرے، جواھر، موتی آبدار، لعل، نگینے، زمرد، پکھراج، نقد مال و سیم و زر، اشرفیاں، سکے، ٹکے، آنے، پائیاں سب کھاتا چلا گیا، جیسے جیسے مال کھایا اور کھلایا برسوں کی بھوک مٹتی گئی اور چہرے میرے اور ساتھیوں کے سب کے سب مانند انار سیستانی و کشمیری کھلنے لگے، میرے ساتھیوں نے محل شاھی اور دربار شاھی سے ھر خزانے تک سرنگیں کھود رکھی تھیں، اور رات دن مال نکال نکال کر ملک سوئیستان بھیجتے رھے جہاں جہاں سے خزانہ خالی ھوتا وھاں لکڑیاں، پتھر، اینٹ گارا، ریت بجری، ڈال کر پر کرتے رھے کہ خزانہ خالی ھونے کا گمان کسی کو نہ گزرے کیونکہ دونوں ھاتھوں سے لوٹو تو حقیقت ھے اگر گنجِ قارون ہو تو بھی پورا نہ پڑے، ساتھ ھی ساتھ فرنگی بزرگ کامل سفید کھال، سفید ریش، روشن چہرے والے نے اس اجاڑ گردی پر الگ سے انعام کالانعام، مال و متاع اور شاباش نذر کی کہ ھم نے اس کیساتھ بھی حق وفا خوب ادا کیا تھا
شاھی محل میں آدمی ہر ایک عہدے کے تعینات ہیں کہ خبرگیری خدمت ھماری خوب کئے رکھتے تھے، بعد مدت قیام ختم ھونے کے کسو نے خوشی سے نہ کہا کہ جاؤ سرکار بلکہ سب روتے بلکتے تھے کہ نہ جاؤ، لیکن ھم کیا کرتے ھماری مدت شاھی ختم ھو گئی تھی اور باری دوسرے درویش کی شروع ھونے والی تھی
ایک اھلکار معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ساتھ اس کے کئی خدمت گار، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا اور ھماری عادت کو دیکھتے ھوئے کہا کہ اپنی مدت شاھی میں جو تم نے چاھا وہ کیا تو اب جاتے ھوئے جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن، روپے سونے کے، اور جڑاؤ کے، اس محل میں ہیں، یہ سب تمہارا مال ہے، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے، کیونکہ آنے والے نے یہ ویسے بھی پھینک کر سب کچھ نیا خرید کرنا ھے، میں نے کہا جو تمھاری مرضی، تمھارا دل نہیں توڑ سکتے پھر جتنا اسباب اس محل شاھی میں تھا، شطرنجی، چاندی، قالین، ستیل پانی، منگل کوٹی، دیوار گیری، چھت پردے، چلونیں، سائبان، نم گیرے، چھپر کھٹ مع غلاف، اوقچہ، توشک، بالا پوش، سیج بند، چادر تکیے، تکینی، گل تکیے، مسند، گاؤ تکیے، دیگ دیگچے، پتیلے، طباق، رکابی، بادئیے، تشتری، چمچے، بکاؤلی، کف گیر، طعام بخش، سرپوش، سینی، خوان، پوش، تورہ پوش، آبخورے، بجھرے، صراحی، لگن، پان دان، چوگھرے، چنگیر، گلاب پوش، عود، سوز، آفتابہ، چلمچی سب میرے حوالے کیے کہ یہ تمہارا مال ہے چاہو اب لے جاؤ، نہیں تو ایک کوٹھڑے میں بند کر کر اپنی مہر کرو، جب اگلی باری آؤ تو پھر لے جائیو جو تمہاری خوشی وھی ٹھیک ھے، ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو
ھم نے رعیت کو کبھی نہیں بھولا سب کچھ اسی کے لئے کیا، ھم سلامت ھونگے تو ان کا کچھ سوچیں گے، یہی سوچ کر اول اوائل میں مضبوط اپنے آپ کو خوب کیا، پھر کچھ دھیلے خواجہ سگ پرست کو دیئے واسطے خرچ پتے عوام کے اور شکر خدا کا بجا لائے، مہم اپنی انجام کو پہنچی، بخیر وعافیت اور ساتھ اطمینان کے ھر کوئی خوش تھا سوائے آزاد بخت کے
آزاد بخت کو مل بیٹھ کر کھانے کے بجائے درد عوام کا کودا تھا، ھمارے دستر خوان تو ویسے بھی ایسا وسیع تھا کہ سو آزاد بخت اور آن بیٹھیں تو کچھ کم نہ پڑے، پر اس سادہ انسان کو فقط عوام کی پڑی تھی، اب عوام کو لئے مارا مارا پھرتا یہاں تک آن پہنچا ھے پر
؎ اب پچھتائے کیا ھوت جب کھوت چر گئے کھیت
اب ھم سے کھایا پیا اگلوانے چلا آیا بیٹھا ھے اور پوچھتا ھے اتنی دولت کہ جس کا قبالہء تصرف تمھارے نام ھے وہ کہاں سے آئی اور کیسی ہے؟ ھو نہ ھو تم نے شاھی محل سے لُوٹی ھے، عوام کا حق دے دو، عوام کا حق دے دو، ارے بھائی عوام کا حق ھم نے بیچوں بیچ خواجہ سگ پرست کتوں والے کے حوالے کر دیا تھا، اب کاھے کا حق باقی رہ گیا ھے میاں
آآآآہہہ وقت گزر گیا مگر وہ عیش و عشرت یاد ھے کہ فرنگی بادشاھوں کو بھی ایسی عیش و عشرت میسر نہیں جیسی ملک جناح کے شاھی محل میں ملتی ھے لیکن اس آزاد بخت نے آن کر ناک میں دم کر رکھا ھے
تو پنواڑیو میرے بھائیو
اب علاج آزاد بخت کا ذمے تمھارے ٹھہرا کہ پیٹ تمھارے ساتھ بھی لگا ھوا ھے جس کی کفالت ذمے ھمارے رھی بس تمھارے اوپر فرض کئے دیتا ھوں علاج اس آزاد بخت کا اور یہ تھی میری کہانی ھمارے ساتھ انصاف کیجیو بھائیو
کتھا دوسرے درویش کی
================
پہلے نے دوزانو بیٹھ کر بغیر وضو کے اپنی کتھا سنائی تو دوسرا وضو کیوں کرتا چنانچہ دوسرے درویش نے چارزانوں بیٹھ کر کہ، وہ جنگلی بھینس سا بھاری بھر کم انسان، دوزانوں بیٹھنا جس کا محال تھا یوں گویا ھوا
سنو خلق خدا درویش اعظم نے جو کہا ..... واللہ حرف بحرف سچ کہا
اے دلق پوشو ...... یہ عاجز حقیر فقیر بونگا بچہ ایک ترکھان کا ھے، خاندانی کام والد صاحب کا ھمارا چھان بـُورا، چھان ٹُــکر خریدنے کا تھا جسے بھٹی میں پگھلا کر پھر سے روٹی بناکر بیچتے تھے، ہفت اقلیم میں اس کام کے برابر کوئی دوسرا کام نہ تھا، مجھ سے چھوٹا بھائی کہ ستارہ آفتاب اور ساتوں کواکب میں نیر اعظم ھے اس وقت سستی روٹی بنا کر بیچتا تھا لیکن مجھے یہ کام سخت ناپسند تھا
میرے قبلہ گاہ نے لڑکپن سے قاعدے اور قانون علم و حکمت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تاکہ تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل قبول بنوں، لیکن خدا کے فضل سے بیس برس کے سن و سال میں سب علم سے جان چھڑا کر امراء سے جان پہچان کرنے چل نکلا، ھرگاہ کہ کسی کو یہ کام پسند نہ تھا مگر میں کسی کے ھاتھ نہ آیا حتیٰ کہ کئی سال بعد میری مراد بھر آئی
میں اِدھر اُدھر حقِ آواراگی پورا کرتا پھرتا رھا، جان پہچان بہت بنا گیا تھا بیچ امراء اور شاھی خاندانوں کے کہ ایک دن ایک جرنیل خرقہ پوش ھمراہ نیزے تیر و تفنگ معہ لاؤ لشکر مجھے ڈھونڈتا آن پہنچا، استاد پھجے کے ٹھیئیے پہ، کہ بغرض "نہار خوری" بوقت دوپر ایک بار وھاں میرا جانا ضرور ھوتا تھا
جرنیل مذکور نے شاھی محل لیجا کر مجھے حمام بھیجا بعد اس کے خلعت شاھی سے نوازا اور مرتبہ سرکار میں وزیر کرنے کا قصد کیا، جب اسے پتا چلا کہ مجھے حساب کتاب "ککھ" نہیں پتا تو خوش ھو کر وزارت خزانہ کا قلمدان میرے ھاتھ دیا اور محل شاھی میں رھائیش جاری کرنے کا حکم فوری اذن کیا
میری تباہ کاریوں سے خوش ھو کر مرکزی جرنیل نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے بیٹے کو میرے ماتحت قرار دیا، اس عزت افزائی کو دیکھ کر قبلہ والد صاحب نے مرکزی جرنیل مذکور سے کہا اب یہ آپ کا ھی بیٹا ھے میرے تو ویسے بھی کسی کام کا نہ تھا، قبلہ گاھی کے لہجے کی تلخی دیکھ کر میں نے عرض کی ابا حضور آپ "چنتا" مت کیجئے میں سارے قرض چکا دوں گا، آپ کا چھوٹا سا چھان بُورے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا دوں گا، اور خدا کے فضل و کرم سے بادشاہ بنتے ھی ایسا کر کے دکھا دیا
مجھے کئی بار بادشاہ سلامت بنایا گیا مگر ھر بار ایک سے ایک نئی ڈھینگ مارنے پر چلتا ھونا پڑا، اب آپ کو تو پتا ھی ھے شاھی امور سلطنت کتنا "اوکھا" کام ھے اس لئے درویش اعظم نے جس قید و بند کا ذکر کیا وہ اھتمام میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا، بس چوک ھوگئی، مجھے سہواً ایسا ھو گیا، جس کے لئے میں شرمندہ ھوں اور اس حال درپیش مشکل سے نجات کا راستہ چاھتا ھوں، جب سے آپ تاج و تخت میرے حوالے کر کے گئے ھیں اس آزاد بخت نے میرا جینا حرام کیا ھوا ھے اس کی کوئی راہ تلاش کرو
ویسے اللہ کے فضل و کرم سے میں نے واسطے اس کا زور توڑنے کے طلسمی پانی منگوایا ھے، ھندو پنڈت نے کہا ھے دم کیا ھوا پانی ھم بھیج دیں گے، نالے بھر بھر اس پانی کے پہنچا دیجیو ملک کے کونے کونے میں اور چھڑک دیجیو ھر قریہ قریہ، بستی بستی، نگر نگر جہاں سے آزادبخت کے دیوانے نکل نکل کے آتے ھیں، جب ساری بستیاں " رُڑ " جائیں، پانی میں بہہ جائیں تو وھاں کے بھوکے پیاسوں کو روٹی پہنچائیو اور وفادار اپنے رھنے کی تلقین کیجئیو تو تیرا بیڑا پار ھوگا
؎ لیکن بھائیو جب قسمت ھوجائے جھُڈو، تو کیا کرے گا اونٹنی کا دُودھو
زرد بیل پر چڑھ کر جہاں جہاں بھی بھائی روٹی لے کر جاتے تو ناھنجار لوگ ان کا منہ چڑاتے، گالیاں دیتے، آزاد بخت کے دیوانے ایسے ھی بات بے بات گالیاں دیتے ھیں، اب بھلا یہ کوئی بات ھے کہ روٹی دینے گئے بندے کو گالیاں دی جائیں اور جا درویش جا کے نعرے لگائے جائیں، حالانکہ جب دیہاتی عورتیں اپنے کسان کی روٹی لے کر کھیتوں میں جاتی ھیں تو وہ خوش ھوجاتے ھیں، لیکن اس کمی کارے کو ایک تو روٹی دو اوپر سے باتیں بھی سنو، کیا دھرا یہ سارا اسی آزاد بخت کا ھے جس نے خواب ترقی کے دکھا رکھے ھیں جبکہ ترقی کرنا صرف درویشوں کا حق ھے ھر چوھڑے چمار کا نہیں
بے شک، بے شک، حق فرمایا اے درویشِ گھمبیر سخن، تو سچ کہتا ھے، کہاں ھم اشرف الاشراف خاندانی لوگ کہاں یہ کمی کمین رعیت، سارے درویشوں نے ھاں ملائی اس کی ھاں میں اور فغاں ملائی اس کی فغاں میں
اخلاقی گینڈے نے شراب کا گھونٹ بھر کر وجد میں سر دھنتے ھوئے کہا بات خوبصورت انتہا کی کہی ھے عالم پناہ کسی بھی مذھب میں مرد کا منہ چومنا جائز نہیں ..... واللہ ..... ورنہ اتنی پیاری بات کہنے پر آپ حق رکھتے تھے کہ منہ چوما جائے آپ کا
ایک شرمیلی فروٹی جوسی حسینہ نے اخلاقی کمان دار مصاحب کا شوقٍ چـُمن چـماٹی انگڑائی لیتے دیکھا تو ایک ھوائی چـُمن اپنے یاقوتی ھونٹوں سے روانہ بہ خدمت اقدس کیا جسے ھونٹوں میں رکھ کر بھنبھوڑتے ھوئے گینڈے نے ماءاللحم دوآتشہ کا ایک نیا جام انڈیلا اور کہا، دل چھوٹا نہ کیجئے عالم پناہ، ھم آپ کے ساتھ ھیں جناب، ھم آپ کے ساتھ
کتھا تیسرے درویش کی
===============
اپنی کتھا پیش کرتا ھوں دوستو، زرا کان لگا کر سنو
تیسرے درویش نے اُکڑوں بیٹھ کر قوت گویائی جمع کی کہ بندہ بہت اکڑو تھا جہاں بھر کا، اس لئے اکڑ کر بولا
مجھ ایسا نابغہء روزگار، سرد گرم چشیدہ، کمر خمیدہ، اوصاف حمیدہ کئی سال پہلے دنیا میں جب وارد ھوا تو گھر میں خوب چراغاں ھوا، پورے شہر میں لوگوں نے اپنے خرچے پر مٹھائیاں بانٹیں کہ ھمارے آقا مرشد سرکار کی محنت سے ھمارے بچوں کے لئے بھی آنے والے وقت کا ایک آقا اور پیدا ھوگیا
میرے ولی نعمت وہاں بادشاہ تھے اور سوائے میرے کوئی فرزند لاڈلہ نہ رکھتے تھے، اسی لئے میں بگڑتا چلا گیا، میں جوانی کے عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوپڑ، گنجفہ، شطرنج، تختہ نرو کھیلا کرتا تھا یا سوار ہو کر سیر و شکار میں مشغول رہتا
گردش زمانہ نے والدین کا رکھا ھوا نام کہیں گم کردیا اور رعایا مجھے ہاضمی کے نام سے یاد کرنے لگی، وجہ تسمیہ اس اجمال کی یہ ٹھہری کہ ھر لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا معدہ پایا ھے لیکن کوئی راز کی بات اس پیٹ میں نہیں ٹھہرتی
بچپن مین امی حضور نے چوبی مہد میں لیٹانا شروع کیا تو میں پنگھوڑے کا ایک بازو ہی چبا گیا، امی جان فرماتی ھیں کہ یہ پنگھوڑا مُلک پرستان سے دو پریاں چھوڑ کے گئی تھیں واسطے اس فقیر کے
فقیر جوانی میں ایک دن ان پریوں کی تلاش میں روانہ ھوا، بہت مارا مارا پھرتا رھا بجز اس کے کوئی تلاش نہ تھی کہ ان پریوں کو ڈھونڈ کر شکریہ ادا کروں، ھرچند پرستان کا راستہ معلوم نہ تھا پھر بھی منہ اٹھا کے جیدھر سینگ سمایا نکل پڑا، جیدھر ھمت ھوئی چل پڑا
راستے میں ملاقات ایک سیاسی پنڈت سے ھوئی جس کے پاس ایک گھن چکر وزیر کی کمی تھی اس مرد دانا نے مجھے حق مہر شرعی بتیس ٹکے آٹھ آنے کے عوض وزارت شاہی کا قلمدان تھما دیا، مہر شرعی کم تھا لیکن نان نفقہ کی بہتات تھی، جب کھا کھا کے میرا منہ بھر گیا تو فقیر کو اونگھنی آگئی، جب بندے کا پیٹ بھر جائے تو اونگھنی آ جاتی ھے اس وقت تھوڑا عرصہ سو لینے سے بندہ پھر تروتازہ ھو جاتا ھے
اس لئے فقیر نے "کلٹی" ماری اور اونگھنے کے لئے ایوان حکومت کا منہ چڑا کر واپس اپنے گھر چلا گیا، پھر ایک دن گھر سے نکلا تو ایک بزرگ ثابت ثبوت صورت نظر آئے، بزرگ نے سمجھا بجھا کر اپنی دینی جماعت میں داخل کیا تاکہ سدھر جاؤں لیکن غیرت سادات جاگی اور گویا ھوئی سید بادشاہ کو غیر سید کے آگے نہیں جھکنا چاھئے دوسرا وھاں لیٹیاں لگانے کا کوئی سربندھ نہیں تھا اس لئے فقیر کا من نہیں لگا اور چپکے سے "کلٹی" مار کے جماعت سے باھر نکل آیا
ویسے بھی ان دنوں ایک دوسرا کھابا کھلنے والا تھا، ایک "شکاری بادشاہ" نے سرکاری بادشاہ سے تاج و تخت چھین کر جب اپنا دسترخوان لگایا تو فقیر کو بلا کر پھر بتیس ٹکے آٹھ آنے بعوض حق مہر شرعی مجھے قلمدان ایک وزارت کا تھما دیا، میں پہلے بھی اس معاوضے پر کام کر چکا تھا اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی اور نان نفقہ بھی بے حدوحساب تھا اوپر سے میں ٹھہرا ہاضمی، لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا معدہ پایا ھے جس میں عام طور پہ ھر چیز ہضم ھو جاتی تھی لیکن راز کی بات اس میں نہیں ٹھہرتی تھی
میں کئی بار بادشاھوں کے ساتھ رھا اور جب چاھتا "کلٹی" مار کر نکل جاتا، اتنی بار "کلٹی" مار کر دکھانا آسان نہیں ھوتا مگر میرے لئے بہت آسان تھا اس لئے کہ میری زنبیل میں ایک طلسمی انگوٹھی تھی جو بچپن میں ایک پری مجھے تحفے میں دے گئی تھی جس میں "کلٹی مار" مونگا جڑا ھوا تھا ، میرے چاھنے والے لوگ ھمیشہ میری "کلٹی" مار حرکتوں پر خوش ھوتے لیکن اب بہت ناراض ھیں اس کی وجہ یہی آزاد بخت ھے، میں کبھی آزاد بخت کے ساتھ نہ ملتا لیکن میرے ساتھ اس دوسرے درویش نے بہت بُرا "دھروؤ" کیا تھا
یہ دوسرا درویش خوب جانتا ھے کہ اس کی سرکار میں دونوں بار میں شامل تھا، اس ناھنجار کا میں نے بہت ساتھ دیا، حتیٰ کہ جب ایک شکاری بادشاہ نے اس کی مقعد شریف پر ٹھڈے مار کر اسے دربدر کر دیا تو میں واحد بندہ تھا جو اس شکاری کے سامنے ڈٹ گیا اس نے مجھے زندان میں ڈال کر مہر قید کی ثبت کی، میں پھر بھی نہیں گھبرایا
جب یہی درویش ملک عرب کی خاک میں چھان بُورے کے کارخانے لگا کر عیش کر رھا تھا تو اس وقت بھی میں یہاں قید و بند کی صعوبتیں اٹھا رھا تھا مگر اس طوطا چشم نے جب واپس آکر زنا کی ایک نئی قسم "نوازنا" متعارف کرائی تو سب کو انعام کالانعام ملا، اس وقت مجھے اس نے "نوازنا" تو کیا تھا الٹا پیچھے پٹخ دیا
اس وقت مارے غصے کے مجھے "کلٹی" مارنے کی سوجھی اور میں کلٹی مار گیا، ایک خواجہ سگ پرست نے میری بہت منتیں کیں لیکن میں ماننے والا نہ تھا کیونکہ آزاد بخت نے مجھے اپنے باپ جیسی عزت دینے کی ٹھان لی تھی اور اس نے ایسا کر کے بھی دکھایا
میں آزاد بخت کے ساتھ ویسے تو بڑا خوش تھا لیکن ایک دن خواجہ سگ پرست نے جب "کلٹی" مارنے کا یاد کرایا اور ساتھ ھی لخلخہ سنگھایا تو میرا دماغ کھل گیا، اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ دوسرے درویش کو بڑی اچھی عقل آگئی ھے، وہ آپ کو بہت یاد کرتا ھے اور آپ کو "نوازنا" بھی چاھتا ھے تو میں آزاد بخت کو " اوا- توا " بول کر وھاں سے سرپٹ بھاگا اور ساتھ ان پرانے درویشوں کے آن ملا
لیکن میرے ساتھ میرے برسوں کے ساتھی شہر والوں نے اچھا نہیں کیا، ان کم بختوں نے آزاد بخت کے کہنے پر میرا سر بالٹی میں دے کر خوب دھلائی کر ڈالی، ابھی تک چکر پہ چکر آ رھے ھیں
اب تم لوگ ھی انصاف کیجیو کہ بھلا مجھ سے "کلٹی" مارنے کا حق چھیننے کا کسی کو کوئی اختیار ھونا چاھئے؟؟؟ اس لئے واسطے اس بلا کے کچھ چارہ کرلو نہییں تو لوگ "کلٹی" مارنا بھول جائیں گے اور تاریخ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتی جو "کلٹی" نہ ماریں
کتھا چوتھے درویش کی
================
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓاے خلق خدا میری کہانی سنو اور انصاف کیجیو
میرا نام پنواڑی ھے اور میں پنواڑخانے میں پیدا ھوا تھا، میں فرد واحد نہیں بلکہ ملک جناح کے طول و عرض میں پھیلا ھوا ھوں، قلمکاری سے لیکر ایوان حکومت اور ھر شعبے میں پایا جاتا ھوں، دست درازی اور توڑ پھوڑ کا شوق سانحہء پیدائیش سے پہلے کا ودیعت کیا ھوا ھے اس لئے کوئی ساتویں ماہ تو کوئی آٹھویں ماہ ھر پابندی توڑ کر باھر آگیا اور خدا لگتی کہوں تو سنو کہ خدا جانتا ھے، یہ تینوں درویش بھی جانتے ھیں کہ خدا کے بعد میں ھی ان تینوں کا آخری سہارا ھوں
پہلے درویش نے دوزانوں بیٹھ کر اپنی کہانی سنائی، دوسرے نے چارزانوں بیٹھ کر اور اَکڑو درویش نے اُکڑوں بیٹھ کر اپنی کہانی سنائی، اب میرے پاس بجُز اس کے کوئی چارہ نہیں بچتا کہ میں الٹا لٹک کر کہانی سناؤں ویسے بھی جب تک میں الٹا نہ لٹکوں مجھے سیدھا نظر نہیں آتا
لیکن ٹھریئے زرا پہلے میں تہبند کے نیچے جانگیہ پہن کر آتا ھوں کیونکہ ایسی حالت میں الٹا لٹکا تو دھوتی نیچے گر جائے گی اور آپ سمجھیں گے میرے دماغ میں سوراخ ھے، پہلے ھی لوگ سوال پہ سوال کرتے ھیں کہ میرے دماغ میں کوئی بات آخر بیٹھتی کیوں نہیں، اوپر سے یہ حادثہ ھوا کہ پہلے پہل بے دھیانی میں آزاد بخت کے مجنؤوں کے سامنے ایسی قلابازیاں لگا کر بہت زلیل و خوار ھو چکا ھوں، بڑی شرمندگی ھوتی ھے جب اس کے پٹھان کہتے ھیں تمھارے دماغ میں سوراخ ھے لاؤ اس کا علاج کریں
ھاں تو میں کہہ رھا تھا کہ میں ھی ان تینوں کا آخری سہارا ھوں جب تک یہ سکہ اچھالتے رھیں گے میں ان کے ساتھ ھوں، چابی والے کھلونے اور مجھ میں کوئی خاص فرق نہیں ھے جو بات ایک بار میرے من میں بٹھا دی جائے میں وھی کرنے پر بضد رھتا ھوں خواہ دنیا ادھر کی ادھر ھو جائے کیونکہ میں غلام ابن غلام ھوں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان ہی مہاپـُرکھوں کی غلامی میں دیکھنا چاھتا ھوں، خانہ زاد موروثی غلام ہوں جن کو راج دربار سے ھمیشہ سرفرزایاں بخشی گئی ہیں
میری طبیعت میں آپ جیسے بڑے لوگوں کو دیکھ کر حضور کا اقبال بلند رھے، دوارے بستے رھیں، مولا شہنشاہ بھاگ لگائے کہنے کی عادت گھٹی میں شامل ھے، آج کل میں نے "چـــمـوٹـا " چلانا چھوڑ دیا ھے اور قلم چلاتا ھوں، اس مقدس قلم سے میں آزاد بختوں کے ساتھ بیٹھی ان کی ماؤں بہنوں کو آوارہ اور بعض اوقات تو فاحشہ بھی لکھ دیتا ھوں، ایسی شقاوت قلبی پر میرے دل میں کہیں درد تو ھوتا ھے پر کیا کروں میرے گھر کا چولہا بھی اسی مزدوری سے چلتا ھے
اے خلق خدا انصاف کرنا کہ میرے آقاؤں اور ان کے بچے بچیوں کو رقص و سرود، شراب کباب کتنا سجتا ھے اور یہ جاھل آزاد بختی سڑک کنارے بیٹھ کر گانے بجانے کرتے کتنے بُرے لگتے ھیں
راز حق بھی کسی پر عیاں جب نہ تھا
تھا مگر تو ھی تو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
سے شروع کرتے ھیں اور پھر اس دیس کو نیا رنگ و روغن کرنے کے ترانے گاتے ھیں اور رات بھر ناچتے ھیں
علامہ اقبال نے ان جاھلوں کے بارے میں تھوڑا کہا تھا کہ
؎ کریں گے اھل نظر تازہ بستیاں آباد
وہ تو ھمارے آقاؤں کے بارے کہا تھا جنہوں نے اربوں توڑے اشرفیاں خرچ کر کے محلات بنائے، غلام بنائے، چہل قدمی کے لئے باغ بنوائے
ھم نے ادب سرائے پر بھی ایک احسان کیا ھے، اب کسی کو ڈھیٹ، بےشرم، بے حیا، جاھل کہنے کی بجائے ان سب معانی کو ایک ھی لفظ میں پرو دیا، اب اتنا کچھ کہنے سے بہتر ھے بندہ ایک پنواڑی کہہ کے حساب چکتا کرے جو کہنے سننے میں طبیعت پر بھی گراں نہیں گزرتا لیکن مقصد واضع کر جاتا ھے
میرے عزیز درویشو یہ ساری "کتے کھانی" میں نے تمھارے کنگرے گھسنے سے بچانے کے لئے برداشت کی ھے، دن رات ان آزاد بختوں سے منہ ماری کرتا ھوں صرف تمھاری خاطر، کس بات کی آزادئ چاھتے ھو تم، اس آزادی کے جھنجھٹ کو چھوڑ کر آؤ اپنے ان درویش صفت آقاؤں کے تلوے چاٹ کر کھاؤ پئیو موج کرو عیش کرو، ایویں خوامخواہ کا شورشرابہ بلند کیا ھوا ھے، بڑے لوگوں کی حاشیہ برداری کرنے کا اپنا ھی سواد ھے، ایسا میں ان کو سمجھاتا رھتا ھوں کس کے لئے، صرف تمھاری خاطر درویشو، صرف تمھاری خاطر، بس میرا وظیفہ دربار سے چلتا رھنا چاھئے بڑی مہربانی آپ درویشوں کی، درویشوں کا اقبال بلند رھے بلکہ ساجھا ، ماجھا، شادا سب بلند رھے
مارنا حاتم طائی کی قبر پہ لات کا
=====================
بتانے والا لکھتا ھے کہ ان درویشوں نے حاتم طائی کا قصہ سنا جس نے کسی غریب کی مدد کے لئے اپنے آپ کو اس غریب کے حوالے کر کے کہا، نوفل بادشاہ میرا دشمن ھے اس نے میرے اوپر پانچ سو اشرفیوں کا انعام رکھا ھے پس تم مجھے پکڑ کر اس کے دربار میں لے جاؤ اور انعام پا کر خوشحال ھو جاؤ، اس غربت سے تمھاری جان چھوٹ جائے گی، مگر وہ غریب یہ ظلم کرنے پر تیار نہ ھوا اسی بحث میں بات کسی اور کے کان پڑ گئی تو اس نے حاتم کو لے جا کر پیش کیا نوفل کے آگے، پیچھے پیچھے وہ غریب آن پہنچا اور فریاد کی کہ حاتم ایسا نیک انسان کسی سزا کا مستحق نہیں ایسے نیک دل انسان کو چھوڑ دو جو میری غربت دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو تمھارے آگے ڈالنے پر راضی تھا مگر میں نے ایسا نہ کیا، غریب کی بات سن کر نوفل بہت شرمندہ ھوا اور حاتم طائی کو دوست بنا لیا اور غریب آدمی کو 500 اشرفی انعام دیا
پہلا درویش جب بادشاہ بنا تو یہ قصہ سن کر پھوٹ پھوٹ کر رویا اور خواجہ سگ پرست سے کہا عوام کے لئے کوئی بھلیائی کا کام کرو، بادشاہ کی بات سن کر خواجہ سگ پرست نے ھر غریب کو 6 سکے روز کے حساب سے 2500 سکے سال بھر کے لئے ھر ایک کو دیئے، اور اس کار خیر کا ثواب ملکہ مرحومہ کو پہنچانے کا قصد کیا
غریب آدمی شاہ کے دور میں ایک دن 6 سکوں سے آٹا لے لیتا، دوسرے دن گھی، تیسے دن، کھانڈ، گڑ، شکر، چوتھے دن نمک مرچ، پانچویں دن سبزی اور چھٹے دن دودھ اور ساتویں دن سب کچھ ملا جلا کر ھانڈی پکا کر کھا لیتا اس طرح شاہ کی مہربانی سے ھر غریب نے اس کے دور میں سال میں 53 بار ھانڈی پکا کر کھائی، یہ بہت بڑی لات اس درویش نے حاتم طائی کی قبر پہ ماری تھی، ضرور اس بیچارے کی چیخ نکل گئی ھو گئی کیونکہ اس نے تو صرف پانچ سو اشرفیوں سے غریب کی خدمت کی تھی اور درویش اقدس نے 2500 ھر غریب کو دیں، یہ ھوتی ھے درویش کی بادشاھی، واہ واہ
دوسرا درویش جب بادشاہ بنا تو وہ بھی اس قصے کو سن کر پھوٹ پھوٹ کر رویا اور خواجہ سگ پرست سے کہا عوام کے لئے کوئی بھلیائی کا کام کرو، بادشاہ کی بات سن کر خواجہ سگ پرست نے کہا ان غریبوں کو کوئی روزگار لے کے دیتئے ھیں، اس کے لئے بڑی رقم مال و دولت درکار ھے، اگر یہ دولت خزانے سے دی تو بڑا نقصان ھوگا، بڑی سوچ بچار کے بعد بادشاہ نے ایک ادھاریئے کو پکڑ کر آگے کیا اور لوگوں سے کہا اس سے رقم ادھار لے کر اپنا اپنا کام کرو،
خواجہ سگ پرست نے پیلے رنگ کے سواریاں ڈھونے والے چھکڑے بنوا کر لوگوں کو خریدوائے تاکہ وہ سواریاں ڈھو کر اپنا گزارہ کریں، محنت میں عظمت ھے اسی لئے سب غریبوں نے پیلے چھکڑے خرید کر سواریاں ڈھونا شروع کر دیں اور سُکھ چین سے اپنا گزاہ کرنے لگے، لیکن جب چھکڑے زیادہ اور سواریاں کم ھو گئیں تو ادھار کے پیسے واپس نہ کرسکنے کی وجہ سے آھستہ آھستہ اپنے چھکڑے ادھاریئے کے ھاتھوں کھو کر پھر بے روزگار ھوتے چلے گئے
یہ بھی پہلے درویش جیسی لات تھی جو حاتم طائی کی قبر پر سہواً جا لگی اور حاتم طائی کے علاوہ سارے لوگ ھڑبڑا گئے اور بادشاہ کی واہواہ واہواہ کرنے لگے، واہ واہ واہ واہ
قصہ خواجہ سگ پرستوں کا
==================
خواجہ سگ پرست کوئی ایک بندے کا نام نہیں، یہ ایک سوچ کا نام ھے جو ان درویشوں کے حکم کی تعمیل میں اپنی صلاحیتیں بدرجہءاتم بروئے کار لا کر پہلے بادشاہ سلامت کے کتوں کو کھلاتے ھیں پھر جھوٹا ان کتوں کا اپنی عوام کو کھلاتے ھیں پھر تسلی سے بادشاہ سلامت کے ساتھ بیٹھ کر لپا لپ دونوں ھاتھوں سے خود کھاتے ھیں، پھر بھی کبھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا
کتھا بقیہ آدھے درویش کی
=================
چوتھے درویش کا قصہ جب ختم ھوا تو اصولاً محفل میں ایک اور رنگ شباب آنا تھا، مطرباء نے الوداعی لمحات سے پہلے، شروع محفل جیسا ایک سُر پھر سے چھیڑنا تھا جسے تان سَین سُن کر اپنی تانیں بھول جاتا اور بیجُوباورا سُن کر باؤلا ھوجاتا، خنجر جیسی پتلی کمریا لئے شرمیلی لچکیلی بل کھاتی نازنینوں نے جام بھر بھر درویشوں کے سامنے دھرنے تھے اور اخلاقی گینڈے نے اپنے ھونٹ کاٹتے ھویئے پھر ایک بار گنگنانا تھا
؎ کتھوں بھالدا ایں گول گول پُـٹھے کڑیاں کنواریاں دے
اور پھر پہلے کی طرح غٹاغٹ جام پہ جام لُنڈانے تھے مگر کباب میں ایک ھڈی آن پڑی
ایک کونے سے ایک غربت زدہ شخص اٹھ کر ھاتھ جوڑتا ھوا سامنے آیا اور کہا، درویشوں کا بھاگ سلامت رھے، جان کی اماں پاؤں تو کچھ عرض کروں
سب درویش ھکا بکا ایکدوسرے کو دیکھنے لگے، کسی سگ پرست نے پوچھا، اے میلے کچیلے، ھیچدان، کم ظرف انسان، تم اس محفل میں بنا نہائے دھوئے کیسے آن وارد ھوئے
بندے نے عرض کی حضور میں دھنی بخش نام رکھاتا سکنہ پِنڈ ٹُـڈِیـکے موضع عبدالحکیم کے پاس ضلع ملتان کا باسی ھوں اور منت اٹھا کر دربان کی بہت دور سے واسطے عرض گزارنے کے بہت پیدل سفر طے کر کے آیا ھوں، وھاں پیچھے بیٹھ کر آپ سب دربار سرکار کے درویشوں کی کتھا ھم نے دل و جان سے سنی، اب آپ ھماری
کتھا بھی سن لو خدا تمھارا بھلا کرے گا
اخلاقی گینڈے نے کہا درویشو، اس بندے کی بات سن لینی چاھئے، مفلوک الحال سائل ھے، کہو بابا کیا کہنا ھے
بندہ ھاتھ جوڑ کے دو قدم اور آگے بڑھا اور کہا حضور میں جب سے پیدا ھوا ھوں آپ کے ظلِ و سایہ میں نامراد ھی گھوم رھا ھوں، جب پڑھنے کا وقت تھا تب پڑہ نہ سکا، جب کمانے کا وقت تھا تب کما نہ سکا کیونکہ دونوں کاموں کے کرنے کا کوئی محل وقوع حاصل ھی نہیں تھا، ایسی کوئی سہولت ھوتی تو مستری کے ساتھ دیہاڑیاں نہ لگاتا کہیں منشی بن کے گزراوقات اچھی کر لیتا، پہلے اکا دُکا جو مزدوری ملتی کر لیتا تھا پھر ایک کھیت زمین جس پر والد بزرگوار کاشت کاری کرتے تھے بعد مُردن ان کے اب میں کاشت کر کے گزران کرتا تھا
ھندو کے پانی کا جو ترونکا اب ھمارے اوپر آن لگا ھے اس نے ھمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اب تو دمڑی کی ٹھڈیاں بھی میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں، دو تین فاقے کڑاکے کھینچ کر یہاں پہنچے ھیں، ہرگاہ میرے ساتھ پچیس لوگ اور مارے مصیبت کے باھر کھڑے ھیں، میں انہیں ٹھہرا کر باھر رون دھون منتیں کر کے دربان کی، فریاد گوش گزار کرنے اندر چلا آیا ھوں
آپ کے بھائی شہزادہ حضور ایک دن کی روٹی آن کر دے گئے تھے، ساتھ مصوروں نے تصویریں بنائی اور چلے گئے، اب بتلایئے کہ ھم باقی کے 364 دن کیا کھائیں
ھمارا کچھ بھلا کرو حضور، ایک کھیت ھمارا وہ بھی پانی میں ڈوب گیا، ھمارے ساتھ کوئی جمع پونجی تھوڑا ھی راکھی ھے، بھلا ایک کھیت کی آمدنی ھوتی ھی کتنی ھے، وہ سیانے کہتے ھیں ناں کہ
؎گنجی نے نہانا کیا اور نچوڑنا کیا
نامعقول ........... بے ادب گستاخ ......... حد ادب........... ایک دم سے کئی دبـکے لپکے بھری آوازیں ابھریں تو بندہ سہم کر تھوڑا پیچھے ھٹا، کن اکھیوں سے دوسرے درویش کی طرف دیکھ کر کہا حضور ناراض نہ ھوں ھم نے لفظ گنجی کا استعمال کیا ھے، پھر بھی معافی چاھتا ھوں
معافی مانگنے کا کچھ اثر نہ ھوا اور ایک مصاحب نے لخلخہ دواکھڑی سے اکھاڑ کر کھینچ کے سائل کو دے مارا، دھنی بخش نے لمبی جست لگائی اور بھاگ جانا ھی مناسب سمجھا، دیہاتی لمڈا، لمبا تڑنگا، ھڈی پسلی کا کھلا تھا اس لیئے یکبارگی لمبے لمبے ڈگ بھرتا اور جستیں لگاتا باھر نکلنے میں کامیاب ٹھہرا، ایک پہرے داروں چوبداروں کی ٹولی اس کے پیچھے بھاگی، مگر اس نے ھانک لگا کر ساتھ اپنے دوستوں کو لیا اور سرپٹ بڑی سڑک پر آگیا جہاں آزاد بخت کا اکٹھ موجیں مار رھا تھا، ھر چند کہ ان کے پیچھے ھوائی تیر بہتیرے چلائے گئے مگر خوبی تقدیر سے بچ بچا کر سب نکل گئے
آزاد بختوں کے اکٹھ میں پہنچ کر اس ٹولی کی سانس میں سانس اور دم میں دم آیا، چند لوگوں نے بھاگم بھاگم روٹی پانی لا سامنے رکھا، بھوکے پیاسے کئی دنوں کے گھاس پھوس کھاتے اجاڑ راستے طے کر کے پہنچے تھے سو کھانے پر پل پڑے
اتنے میں آزاد بخت اپنے تخت پر آن چڑھا، اس نے سنکھ نما آلہء آواز رساں اٹھایا اور کام شروع کر دیا، رات کے سناٹے میں اس کی گرجدار آواز گونجی اور شاھی محلات سے ٹکراتی ھوئی پائیں باغ میں ماحول بنا کر بیٹھے عیش کوش ٹولے کی سمع خراشی کرتے ھوئے پورے شہر میں پھیل گئی
اوئے درویشو
میں سب دیکھ رھا ھوں
عوام کے پیسوں پر تمھاری سب عیاشیاں میرے سامنے ھیں، میں تم سے عوام کا پیسہ اور چٹھی دست برداریء تاج و تخت لکھائے بغیر یہاں سے جانے والا نہیں
اوئے درویشو ..... سُنو
آزادبخت کی آواز سنتے ھیں پائیں باغ میں بیٹھے درویشوں کو "پدھیڑ" پڑ گئی، لگے سب بھاگنے اور کھسکنے کا چارہ کرنے
ساقی گری کرنے والی مہ جبینیں، نازنینیں گھبرا کر اپنے ھاتھوں سے سینے چھپا کر سرپٹ بھاگ اٹھیں، قلانچیں بھرتی ھوئی گئیں سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کو اور درویشوں کے چہرے پہ ھوائیاں اڑنے لگیں، جو جام خوشی خوشی ٹکرائے جانے تھے وہ "ھبڑ دبڑ" میں ٹکرا کر ٹوٹنے لگے اور آزاد بخت کی گرجدار آواز سن کر ھر کسی کی "پیتی آن کی آن میں ایسے لییہ گئی جیسے کبھی پیتی ھی نہ تھی"
رات کے سناٹے میں ایک ھی آواز گونج رھی تھی
یہ جہاں جب نہ تھا آسماں جب نہ تھا
تھا مگر تو ھی تو، تھا مگر تو ھی تو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
آزاد بخت کے من موجی دیوانے سر دھننے لگے، شاھی محل کے پاس پھیلی ھوئی کالی رات میں اللہ ھو اللہ ھو اور نئے دیس کے ترانوں پر آزادبختوں کو اس وقت تک محو رقص رھنا تھا جب تک اس کالی رات کی سحر نہ ھو
عبدلحکیم سے آنے والے آدھے درویش نے پاس کھڑے ایک آزادبختی سے پوچھا بھیا یہ کب تک کرنا پڑے گا، تو اس نے ناچتے ناچتے جواب دیا، تم نے آزاد بخت کو سنا نہیں، کیا کہا اس نے
اس وقت تک یہی کچھ ھوگا جب تک اس رات کی سحر نہیں ھوتی
دھنی بخش نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا پھر کچھ سوچتے ھوئے کہا
او ئے شروع تھی ونجو مَلۤو، پچھاں ول کے بھی کیا کریسوں، ایتھاں روٹی تے ملسی پئی
بھوک و افلاس کے ستائے ھوئے من موجی نئے دیس کی امید میں والہانہ ناچتے رھے اور چاروں درویش اپنے اپنے لحاف میں دُبکے نہ سو سکتے تھے نہ جاگ سکتے تھے اور اس عذاب سے ان کو کوئی چھڑانے والا بھی نہ تھا
رات کے پچھلے پہر تک اللہ ھو کی آواز آتی تھی یا پھر
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا
جا درویش جا