Thursday, December 4, 2014

ہ دنیا مکافات عمل ہے------------------------------------- تحریر: عُمراقبال

یہ دنیا مکافات عمل ہے- ------------------------------------ تحریر عمر اقبال
جیل کی سزائے موت کی کال کوٹھری تهی-
خوفناک سناٹا تها- زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
باہر شاید بارش ہورہی ہے-
اسکے پتھرائے ہوئے دماغ میں خیال گزرا-
کیونکہ بادلوں کی ہلکی ہلکی گرج خوفناک سناٹے کو چیر رہی تھی-
لیکن انکی چمک ، بارش کی ہلکی پھوہار اور ٹھنڈی ہوا کے تازہ ترین جھونکوں سے محروم تها-
آج اسے محسوس ہوا کہ بارش کتنی بڑی نعمت ہے-
کال کوٹھری کا کھانا بهی تو آج رات نہ آسکا-
"کهانا نہیں ملے گا آج ! پتہ نہیں کیا ہوا؟ شاید بارش کی وجہ سے گاڑی دیر سے پہنچے گی-"
جیل کے سنتری نے فولادی دروازے پر لگی چهوٹی سی کھڑکی کهول کر اسے بتا دیا اور کھڑکی بند کر دی-
اسکو کهانا نا ملنے کا کوئی غم نہیں تها- لیکن پانچ دن بعد ایک انسانی آواز جو اس سے مخاطب تهی، اسکے سننے کی خوشی تهی- کیونکہ وارڈن بغیر کچھ کہے کھانا آہنی دروازے کے نیچے سے سرکا دیتا تها-
"بهائی میری بات تو سنو-" وہ تڑپ کر اٹھا- میرے سے دو باتیں تو کرلو-
لیکن کال کوٹھری کا وارڈن کب کا جا چکا تها-
پهر سے بس ایک وہ تها اور وہ کالی قبر تهی-
آنسوؤں کی لڑی نجانے کب سے بہہ رہی تھی- اور رکنے کا نام نہ لیتی تهی-
"یا اللہ! میں سزائے موت کا مجرم کیسے؟" اپنے رب سے اسکا ایک ہی سوال تها-
"میں نے تو تیرے بندوں پر کبهی ظلم نہیں کیا تها-
چونسٹھ سال کی عمر کا کمزور آدمی کیسے اور کس کا قاتل ہوسکتا ہے؟ اے رب ذوالجلال تو جانتا ہے میں بے گناہ ہوں-"
اپنے رب سے باتیں کرتا، نجانے کب نیند کی وادیوں میں کهو گیا-
خواب بهی تو اسکو ڈراونے آرہے تهے-
کبهی اپنے آپ کو تختہ دار پر جھولتے دیکھتا اور کبهی جلاد کو اپنا چہرہ ڈھانپتے دیکهتا-
خواب میں کیا دیکها کہ ہندوستان کی تقسیم ہو رہی ہے-
ہندوؤں کے قافلے بھارت جا رہے ہیں-
اور مسلمان پاکستان آرہے ہیں-
کشت و خون کی لڑائی جاری ہے- لیکن اسکو کوئی پرواہ نہیں-
کڑیل جوان اور مضبوط جسم کا مالک روزانہ گهر سے نکل پڑتا ہے- اور دیکهتا ہے کہ ہندوؤں کی چهوڑی ہوئی کسی چیز کو اچک لے- ایک آواز آتی ہے
" یہ تیری کمائی کے دن تهے- تُوچور جو ٹھہرا اپنے علاقے کا-"
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- یوں محسوس ہورها تها جیسے آواز بہت قریب سے آئی ہے-
وہ واقعی ایک چور تها- لیکن بعد میں چوری سے تائب ہوکر کوئی کام شروع کردیا تھا-
اسکو یاد آیا کہ ایک ہندو قافلہ اپنی بهینس کو ایک درخت سے باندھ کر چھوڑ گیا تها-
کیونکہ بهینس درد زہ کی وجہ سے ، بہت آہستہ چل رہی تهی –اور قافلے والوں کو جان کا خطرہ تھا- اسلئیے بھینس کو چھوڑ گئے-
جب یہ اس درخت تک پہنچا تو بهینس کا بچہ ہوچکا تها- اور چند گھنٹوں کا تها-
اسنے بهینس کی درخت سے رسی کھولی اور چلتا بنا-
بچہ بهی ماں کےساتھ ساتھ ہولیا-
اسنے دیکها کہ بهینس بچے کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی ہے- اور مڑ مڑ کر اسکے ساتھ ملنے کا انتظار کرتی ہے-
چور کو بهینس بیچنے کی جلدی تھی اور بچہ اسمیں رکاوٹ تها- اس نے بندوق نکالی اور بهینس کے بچے پر فائر کر دیا- بچھڑا تڑپ تڑپ کر مرگیا-
بهینس نے آسمان کی جانب سر اٹھایا اور پهر جهکا دیا- چور نے منڈی لے جاکر بهینس کو بیچ دیا- اور سستی سی زرعی زمین لے لی-
کهیتی باڑی سے اس کے دن پهر گئے –
شادی ہوگئی بچے ہوگئے- وقت بہت اچها گزر رها تها کہ اچانک گاءوں کا ایک بااثر آدمی قتل ہوگیا اور الزام اس پر آگیا-
کال کوٹھڑی کا فولادی دروازہ دلخراش چرچراہٹ کے ساتھ کهلا-
اس کی سوچوں کا تسلسل یکایک ٹوٹ گیا-
جیل سپرنٹنڈنٹ اسکی کی کوٹھڑی میں داخل ہوا-
"میاں تاج دین ولد میاں رحمت دین! کل تمہیں فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے، پھانسی دے دی جائے گی- اپنی آخری خواہش بتا دو- آخری کھانا کیا کھانا چاہتے ہو وہ بهی بتا دو- کل تہجد کے وقت وارڈن تمہیں گرم پانی کی بالٹی دے گا-
آخری غسل کرلینا اور وارڈن کو اپنے وارثوں کے نام لکهوا دو جن سے تم آخری ملاقات کرنا چاہتے ہو-"
تاج دین ہکا بکا رہ گیا-
قدرت کے انتقام کی گهڑی آن پہنچی تهی-
اور اسکو اسکے شکوے کا جواب بهی مل گیا تھا-
کہ کس طرح اس نے ایک کمزور بے کس معصوم کی جان لی تهی- اور اسکی دکهی مظلوم ماں کی آہ آج اسے تختہ دار پر لٹکا رہی تھی-
پهر وہی خوفناک سناٹا تھا-
زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
مال روڈ کے نابینا معذوروں کی آہ امراء کے در و دیوان ہلا دینے کیلئے کافی ہے-
قدرت اپنا حساب پورا ضرور کرتی ہے- اس کے هاں دیر ہے- اندھیر نہیں-
کیونکہ یہ دُنیا مکافات عمل ہے-

No comments:

Post a Comment