Thursday, December 18, 2014

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)------------------------------------------------- تحریر:عمر اقبال
"تاج دین کیا کھانا کھاؤ گے؟"
جیل کے وارڈن نے کوٹھڑی کا آہنی دروازہ کھولا-
تاج دین نجانے کن خیالوں میں گم تھا- اس دفعہ اُس نے وارڈن کا کھڑے ہوکر استقبال تک نہ کیا- بس ایک ہی جانب گھورے جا رہا تھا- انسان جب اللہ تعالیٰ کی یاد میں مگن ہوتا ہے تو اُس کو دُنیا و مافیہا کی پراہ نہیں رہتی- بشرطیکہ یاد سچے دل سے کی جارہی ہو-
یہی کیفیت اسوقت تاج دین کی تھی-
"مجھے کچھ نہیں چاہیے، تُم مہربانی کرو اور مجھے ایک مُصلٰے لا دو- "
وارڈن کے دل میں پہلی بار رحم آگیا- کیونکہ وہ بھی کسی حد تک جانتا تھا کہ تاج دین قاتل نہیں ہے-
"تُم خوفزدہ نہیں ہو اس سزائے موت سے؟جبکہ تم جانتے ہو کہ بے موت مارے جارہے ہو؟" وارڈن نے سوال پوچھا-
"نہیں میں خوفزدہ نہیں، یہ میرے مکافات عمل کی سزا مل رہی ہے- اور میں بہت خوش ہوں کہ دنیا میں ہی سزا پا رہا ہوں-" تاج دین نے بے رغبتی سے روکھا سا جواب دے دیا-
بھر تاج دین نے سارا واقعہ سنا دیا-
وارڈن نے قہقہ لگایا اور بولا- "اسطرح تو کئی درجن لوگ روزانہ جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دئیے جاتے ہیں- ہماری اندھی گولیوں سے کئی بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں- ہمارے پیٹی بھائی بھی مجبور ہوتے ہیں- آڈر جو ہوا- لیکن ہمیں آڈر دینے والوں کو تو کوئی سزا نہیں ملتی- ایسا کیوں ہے-"
"سزا ملتی ہے-" تاج دین نے جواب دیا- "انکے محلات کے دیوان اور باغیچے اور قلعہ نُما گھر ہوتے ہیں- باہر تین تین سو تمہارے پیٹی بھائی پہرہ دیتے ہیں- لیکن اُنکے دل میں وہ سکون نہیں ہوتا جو اسوقت میرے دل میں ہے- کوئی بیمار ہے اور کوئی اولاد کی وجہ سے بدنام ہے-
کسی کو درجنوں مقدموں کا سامنا ہے اور کوئی اپنے ہی صفوں کے نااہلوں سے پریشان ہے- میں ایک عام آدمی تھا- جس کا فیصلہ جلدی ہوگیا- اور مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں- لیکن میری روح روز قیامت ان حکمرانوں کا حشر ہوتا ضرور دیکھے گی جو روزانہ کی بنیاد پر پولیس مقابلوں، جلوسوں اور دیگر مواقع پر ہزاروں ماؤں کی گود اجاڑے جاتے ہیں-اُنکو سزا ضرور ملے گی- ضرور ملے گی-" وہ اپنے خیالات میں گُم یہ الفاظ دہراتا چلا گیا- اور اُسکو پتہ بھی نہ چل سکا کہ وارڈن کب چلا گیا تھا- اور وہ اکیلا ہی اپنے آپ سے باتیں کیئے جا رہا تھا-
سارا دن گزر گیا مغرب کا وقت آن پہنچا- تاج دین عبادت میں مگن اپنے گناہوں کی معافی میں مصروف تھا-
کال کوٹھری کا دروازہ پھر سے کھل گیا-
"ملاقاتی آئے ہیں-" باہر نکلو-
پورے دو مہینے کے بعد اس آہنی قبر سے باہر نکلا-
وہ جان بوجھ کر ننگے پیر چل رھا رہا تھا- کیونکہ اس زمین کی آخری ٹھنڈک کو محسوس کرنا چاہتا تھا- جیل کی راہداری سے ہوتا ہوا جب ملاقاتیوں سے ملنے جارھا تھا -شام کی سرد ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوا- اُس نے ایک لمبی سانس لی جیسے سارا ہوا کا جھونکا کھا جائے گا- ہوا کے جھونکے کی تازگی کا احساس اسکو اپنے پھپھڑوں کے آخری خلیئے تک محسوس ہوا-
اُسکی حسرت بھری نگاہ جیل میں اگے ہوئے سرسبز پیڑوں پر پڑی، جو شام کی اداسی کے ساتھ ہوا میں جھوم رہے تھے- اور پھر اُن چڑیوں پر نظر ڈالی جو آزاد فضاؤں میں اُڑ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کو جارہیں تھیں- ان چڑیوں کو آرام کرکے ایک ایسی صبح میں جاگنا تھا، جو تاج دین کی زندگی کی آخری صبح تھی- ان آزاد چڑیوں کو دیکھ کر تاج دین خوش ہوا-
لیکن اپنے ہاتھوں پر لگی ہتھکڑی دیکھ کر پھر اُداس ہوگیا-
ملاقات کیلئے اُسکے بھائی بہن، بیوی بچے، بچپن کا جگری دوست نورالٰہی اور اُسکا وکیل آیا تھا-
اُسکا دوست اسکے گلے ملا اور کہا-
"تاجے فکر نہ کر- ہم نے رحم کی پھر سے اپیل کریں گے اور یہ دکیل صاحب بھی،،،،،،،،،،،،،"
"بس کر نُورے!!!! بہت بھاگ دوڑ کر لی تم سب نے- جو ہو رہا ہے ہونے دے-"
نور الٰہی بھڑک اُٹھا،"تُو پاگل ہوگیا ہے کیا؟ یہ پھانسی کی سزا ہوئی ہے پھانسی کی- جان چلی جاتی ہے اس میں- اور بندہ واپس نہیں آتا- اسکو کو سمجھاؤ وکیل صاب- یہ پاگل ہوگیا ہے-"
وکیل نے بولنا چاہا لیکن تاج دین نے روک دیا-
بیوی بچوں، بہن بھائیوں کو اندر بلا لیا گیا- بھائی ، بہنیں اس سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے- بیٹیاں الگ سے بے حال تھیں، شریک حیات چادر میں منہ چھپائے آنسو بہا رہی تھی-
تاج دین نے فردا، فردا سب کو دلاسہ دیا- اپنے بھائیوں سے اپنی اولاد کا خیال رکھنے کو کہا- شریک حیات کو بھی تسلی دی –
ملاقات کا وقت ختم ہوگیا- اور تاج دین واپس کال کوٹھری میں آگیا-
"ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا-" وارڈن نے تاج دین کو کہا-
تاج دین حیران رہ گیا اور بس اتنا کہہ سکا- "پولیس والے کی آنکھوں میں آنسو----------؟؟"
"کیوں؟ ہم پولیس والے انسان نہیں؟ ہمارا دل نہیں؟ یہ تو اُن بھیڑیوں کے حُکم کی زنجیر بندھی ہوئی ہے ہمارے پیروں میں- ورنہ ہم لوگ بھی عوام ہیں- اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا-"
"معافی کس بات کی مانگ رہے ہو؟" تاج دین نے سوال داغا-
"معافی میں اس بات کی مانگ رھا ہوں ، کہ تمہارے مکافات عمل کے فلسفے کو سمجھنے میں دیر کردی- اور قہقہہ لگا دیا تھا- بس اُس کی معافی چاہتا ہوں-
میری آنکھوں میں آنسو تمہارے بچوں کو دیکھ کر آگئے- کہ کس طرح بیٹیاں باپ کی محبت میں تڑپ رہیں تھیں اور کس طرح سے ایک بے بس بیوی اپنے شوہر کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہی تھی-
ایک بہن اپنے بھائی کی پھانسی کی خبر سُن کر کس طرح چیخ چیخ کر فریاد کر رہی تھی- اور بھائی بھی چپکے چپکے رو رہے تھے لیکن تمہیں اور بچوںاور خواتین کو تسلیاں دے رہے تھے- ایک طرف بچپن کا دوست بے حس وحرکت بُت بن کر کھڑا تھا- اور اپنے دوست کو موت کے منہ سے بچانے کیلئے آج بھی پُر اُمید تھا-"
تاج دین مسکرا دیا جبکہ وارڈن بولتا جا رہا تھا- شاید یہ کسی آخری انسان سے تاج دین کا طویل مکالمہ تھا-
وارڈن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ- "میرا افسر بھی بہت بڑا رشوت خور تھا- رشوت کی کمائی سے اپنی اولاد کو جوان کیا- بیرون ملک دورے، کمیشن، ٹھیکے سب کاموں میں برابر کا حصے دار تھا- بلا کا ذہین تھا- اسی لیئے ترقی کرتا کرتا کہاں سے کہاں پہنچ گیا- کہنے کو ایک معمولی تھانیدار بھرتی ہوا تھا، اور پھر ایک بڑا افسر بن کر ریٹائر ہوا- وہ جب مرا تو میں بھی اسکے جنازے میں شرکت کیلئے گیا-
افسر کی میت سامنے پڑی تھی اور بیٹے جائیداد کا جھگڑا کر رہے تھے- اور ہم لوگ ان بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ باپ کی میت پہلے قبر میں تو اُتار لو ، پھر یہ جھگڑے کرتے رہنا- لیکن یہ تو ہم بھی، اندر سے جانتے تھے کہ وہ کتنا کرپٹ افسر تھا- پس اُسی دن سے میں نے رشوت سے توبہ کی اور اپنی ڈیوٹی بدلنے کی درخواست کردی- لوگ حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ احمق ترین انسان ہے- زیادہ پیسے سے کم پیسے کی طرف جا رھا ہے- لیکن میں مطمئن تھا- کیونکہ ایک رشوت خور کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا- یہ اُسکی مکافات عمل تھی جس کا عذاب دُنیا سے ہی شُروع ہوگیا تھا-"
وارڈن چلا گیا اور تاج دین کو گہری سوچ میں چھوڑ گیا- وہ سوچ رہا تھا- کہ اُسکا جرم ایک بھینس کے بچے کو مارنا تھا- اور اُس بچے کی مجبور بے کس ماں کی بددعا، اُسے لگ گئی- یقینا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے- اُس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور تخت نشینوں کو اُنکا حساب مل کر رہے گا- چند سکوں کی خاطر ملک وقوم کا سودا کرنے والے کہاں تک وسیع و عریض محلات میں رہیں گے؟
کہنے کو تو جہانگیر بادشاہ اور اسکی بیوی نورجہاں بھی اعلیٰ محلات میں رہتے تھے- دارا اور سکندر کی بھی ان موجودہ حکمرانوں سے ہزار گنا اُونچی شان تھی- آخر میں ان کی قبروں کے نشان تک نا بچے- سب مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے- تاریخ کے صفحات نے انکے خوشامدیوں اور درباریوں کو دو سطریں دینا بھی گورا نہ کیں-یہ تو اپنے آقاؤں کے سامنے جھکتے ہیں- اور اُن بادشاہوں کے ماتحت کتنی سلطنتوں کے بادشاہ تھے، جو اُن کے سامنے جُھکتے تھے-
اگلی صبح تاج دین کو پھانسی ہوگئی- اور اس دن، تاج دین کا نام، اخبار کی ایک چھوٹی سی سرخی کی زینت بنا- اُسکا نام بھی اُسکے مرنے کے بعد اخبار میں آسکا-
وطن عزیز جس ظلم و بربریت کے دور سے گزر رہا ہے- اور جس طرح نا انصافیوں کا دور دورہ ہے-جس طرح سے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا- اور جو کچھ 31اگست کو حکومت کی دہشت گردی کا نمونہ ہم نے دیکھا- یا فیصل آباد میں کالعدم تنطیموں کے کارکنوں سے اور سول وردی میں ملبوس پولیس والوں سے جو قتل عام کروایا گیا- اسکی مثال بہت کم ملتی ہے- قاتل کے ہم شکلوں کو میڈیا کے سامنے بٹھا کر معاملہ رفع دفع نہیں کیا جاسکتا-
مسئلہ صرف چار حلقوں کا تھا- جو اب خود میاں صاحب کے گلے کا حلقہ بن گئے ہیں-
فرعون کو بھی اللہ نے تب تک معاف کیئے رکھا تھا، جب تک وہ انصاف کرتا تھا- حالانکہ خدائی دعوٰی کرنے والا اللہ کے سخت ترین عذاب کی پکڑ میں آتا ہے- پر فرعون کو، اُسکے انصاف کی دجہ ہے ڈھیل ملتی رہی- جو سیدنا موسٰی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ختم ہوگئی اور فرعون غرق ہوا-
موجودہ دور فرعونیت کے تخت نشین ، اس بات کو سمجھنے سے عاری ہیں- کیونکہ جب اللہ کسی کو ذلیل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، تو اُس سے غلطیاں کرواتا ہے-
ریکوڈک کے منصوبے پر کئی عوامی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور 11دسمبر 2014 کو، چُپکے چُپکے جاکر معاہدہ کیا جا رہا ہے- جس میں یہودیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے لایا جا رھا ہے- تحریک انصاف پر یہودی لابی کے الزامات لگانے والے خود اُن یہودیوں کے بُوٹ کی ٹوہ چاٹ رہے ہیں- اور سونے کی کان کنی کے ٹھیکے (بشمول اپنے کمیشن) یہودی کمپنی کو دیئے جا رہے ہیں- ایسی آمرانہ جمہوریت سے ہمیشہ ملک خسارے میں رہے گا- یہ کان کنی کوئی راکٹ سائنس نہیں، پاکستان کے باشندے دُنیا بھر میں اس پیشے سے وانستہ ہیں- ام کو واپس بلا کر اس شعبے میں کھپایا جاسکتا ہے- کتنے ذہین افراد بے روز گار بیٹھے ہوئے ہیں- انکو کو ٹریننگ دے کر ایک باعزت روزگار ریا جاسکتا ہے-
لیکن یہان مُلک کی عوام کی کون "بیوقوف" سوچ رھا ہے- یہاں تو بس اپنی جیبیں بھرنے کی پڑی ہوئی ہے-
پاکستان کی مثال اُس کسان کی سی ہے، جسکو پتا چلتا ہے کہ اُسکے کھیت کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے- اور وہ گاؤں کے ظالم وڈیرے کو اسکی خبر کردیتا ہے- اور وڈیرا اسکی زمین خرید کر اُسکو چند سکے تھما دیتا ہے-
اور کسان خوشی خوشی ناچتا ہوا ، اپنے گھر چلا جاتا ہے-اور اپنے بیوی بچوں سے کہتا، "دیکھو ، دیکھو وڈیرے نے مجھے امداد دی ہے- "
اور معصوم بچے "ابّا زندہ باد!" کے نعرے لگاتے ہیں-
مشکل وقت میں ہمارے حکمرانوں نے اپنا سامان اُٹھانا ہے اور کسی باہر کے مُلک بھاگ جانا ہے- اور ہم عوام اور ہماری نسلیں ان کے قرضے اتارتے اتارتے کمر توڑ بیٹھیں گے-
کہاں تک بھاگیں گے یہ لوگ، کب تک بھاگیں گے- اور کتنا جھوٹ بولیں گے؟
جبکہ قدرت کا فیصلہ آچکا ہے- اور ان کی مکافات عمل شروع ہوچکی ہے-


No comments:

Post a Comment