Monday, December 22, 2014

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟------------------------------تحریر عمر اقبال
جون ایلیا نے شاید یہ شعر اسی دن کیلئے کہا تها-
جو دیکهتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں-
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں-
ابهی تھوڑی دیر پہلے ایک دوست کی وال پر بھارتی اداکار راجیش کهنا اور ایک مشہور ہیروئین کی تصویر دیکھ کر دل یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا سانحہ پشاور کے بعد بهی یہ قوم نہیں سنبھلے گی تو کب سنبھلے گی-
امریکہ 14 سال پہلے9/11 ہوا- اس کے بعد ایک بهی دہشت گردی کا بڑا واقعہ نہ ہوسکا، جس میں اتنے بڑے پیمانے کی تباہی ہو-
2002 سپین کے شہر میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر دھماکے ہوئے اڑھائی سو سے زیادہ افراد جان سے گئے-
لندن میں بهی اسی سال دھماکے ہوئے- اور بهاری نقصان ہوا-
پورے یورپ میں کہرام مچ گیا- یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا- تمام یورپی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور عہد کیا کہ اپنے ممالک میں دہشتگردی کا ایک واقعہ بهی نہیں ہونے دیں گے- آج تک آپ کو 2001 اور 2002 کے بعد کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا نظر آیا؟
سعودی عرب میں 2003 میں خوفناک دہشت گردی ہوئی-2003 کے بعدسے آج تک وہاں کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوا؟
یہی حال ترکی کا ہے- اور آج ترکی میں سیاحت ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گئی ہے- جیسے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہے-
شاید دہشت گرد ان ممالک میں پچھلے بارہ تیرہ سال سے ستو پی کر سو رہے ہیں- اسلیئے ایسا کچھ نہیں ہورها-
شاید انکے عوام نے بهی ہماری طرح "نری دعاؤں" پر گزارہ کیا اور دہشت گردوں کی بندوقیں خراب ہوگئیں- انکے اسلحے کو زنگ لگ گیا- انکی عوام نے اپنے آپ کو کچھ دن کیلئے غمگین کر کے، اور اپنے پروفائل تصویریں کالی کرکے "سب اچها" کا نعرہ لگا دیا- اور دہشت گرد ڈر گئے-
جی نہیں، ہرگز نہیں،
ان تمام ممالک نے دہشت گردی کے سینکڑوں منصوبے ناکام بنائے ہیں- ان ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سکولوں کالجوں کے نصاب میں اپنے بچوں کو سمجھایا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں-
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان تمام حکومتوں کی زیر نگرانی دہشت گردی سے نمٹنے کی عوامی آگاہی مہم میں، تمام عوام کو دہشتگردوں کے خلاف اپنی اپنی حکومتوں کا ساتھ دیتے دیکها ہے-
حکومتوں نے اپنی عوام کو باقاعدہ تعلیم دی اور اربوں
ڈالر خرچ کیئے-
کیا لبرل دہریئے کیا چرچ کے پادری کیا مسجد کے امام، سب ایک سٹیج پر اکٹھے نظر آئے- کسی نے اپنے پوائنٹ سکورنگ کیلئے دوسرے کو ٹانگ نہیں کھینچی-
اب وطن عزیز پاکستان کی طرف آتے ہیں-
"میں "صدقے" میں "قربان-
میرا "سوہنا" پاکستان-
سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے سے لیکر سانحہ پشاور تک- ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹهے ہیں - لیکن عوام اب بهی سنجیدہ نظر نہیں آتی-
کیونکہ ہمارا وطیرہ ہر سرکار سے گلہ ہے-
ہماری خفیہ پولیس کو بهی باہر کے ممالک سے ٹریننگ کی سخت ضرورت ہے-
جبکہ ایک زمانہ تھا باہر کے ممالک ہم سے ٹریننگ لینے آتے تهے-
کسی اور ملک پر اعتماد نہیں تو برادر ملک سعودی عرب سے ہی کچھ سیکھ لیں- جن کا داخلی ڈھانچہ انتہائی مضبوط ہے اور کوئی پرندہ بهی پر نہیں مار سکتا- سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیئے-
ہماری خفیہ پولیس کے صد سالہ پرانے نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیئے-
جب تک عوامی سطح پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ جاری رہے گا- جب کچھ لوگ ایک جانب دوسرے فرقے یا سیاسی جماعت کو ، اپنی پوائنٹ سکورنگ کیلئے دہشت گرد کہیں گے-
اور دوسرے گروہ والے انکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں گے- تب تک امن کا قائم ہونا مشکل ہے-
یہ عوام کا کام ہے اب ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ توڑ دیں، توڑ دیں، توڑ دیں- خدارا ختم کریں یہ الزام تراشیاں-
اور بلا تفریق سب ایک ہوکر اس دہشتگردی کا مقابلہ کریں- کیونکہ عوام ہی کسی ریاست کی اصل طاقت ہے-
اگر اب بهی ہم سب اس سوگ کی فارمیلٹی دکها کر اور چند آنسو بہا اپنے اپنے کام میں جت گئے-
اور "سانوں کی" یا "ہمیں اس سے کیا" کی گردانیں الاپتے رہے تو پهر مزید سانحہ پشاور کی طرح اپنی اور اپنے ننھے پهولوں کی گردنیں کٹانے کو تیار ہوجائیں-
شیر شاہ سوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو دہلی تک جانے سے خوفزدہ تها-
اس نے سرحد پر ایک ہندوستانی کسان کو دیکها اور اس سے پوچھا-
"تمہارے ملک ہندوستان میں جنگ ہورہی ہے- اور تم مزے سے کهیت میں ہل چلا رہے ہو؟"
کسان نے کہا- "ہاں جنگ لگی ہوئی ہے- ہندوستان کا بادشاہ جانے اور اسکا دشمن جانے- مجهے تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے- میرا اس جنگ سے کیا تعلق؟ "
شیر شاہ سوری نے فوراً اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم جاری کردیا-
کہ جس قوم میں سب کچھ حاکم کی ذمہ داری سمجھ کر، صرف اپنا سوچنے والے موجود ہوں، اس قوم کو فتح کرنا مشکل نہیں ہوتا-
جس شیر شاہ کی(کابل سے آسام تک) بنائی ہوئی جرنیلی سڑک ( جی ٹی روڈ) اس بات کہ گواہی دے رہی ہے کہ وہ معمولی سا باغی سردار، ایک مدت تک پورے ہندوستان پر قابض رہا-
اپنے اردگرد کوئی بهی مشکوک شخص یا محلے کے نئے کرائے دار وغیرہ کی جانچ پڑتال ضرور کریں-
پنجابی کا ایک مشہور قول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے، کہ اگر آپکو کوئی مشکل درپیش ہے یا کسی دشمن سے خطرہ ہے تو اپنے گاؤں کے لوگوں سے اسکا اظہار کریں-
اور اگر آپکے گاؤں میں کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تو اپنے گهر کی چهت پر چڑھ کر شور مچا دیں سارا گاؤں اکٹھا ہوجائے گا-
کہ بهائی تمہارا مسئلہ کیا ہے-
اور بات بهی سنے گا-
ڈان نیوز کے مطابق امریکا نے کہا ہے کہ وہ اگر ملا عمر اور دیگر طالبان رہنما امریکا کے لیے براہ راست خطرہ نہ بنے تو آئندہ سال دو جنوری کے بعد امریکی فوج افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔
اب آپ خود اس امریکی بیان سے اندازہ لگا لیں- کہ کس طرح ہمیں دہشت گردی میں دھکیل کر خود صلح کرنے جا رہا ہے-
بخدا اس سوگ کو فارمیلٹی یا رسم نہ بنائیں اور دہشتگردی کے خلاف متحد ہوں- ایسے کئی سوگ پہلے بھی منا چکے- اب متحد ہونے کا وقت ہے- اور ہمارا دشمن نہیں چاہتا کہ ایسا ہو-
اپنے صوبے کی حکومت کی دی گئی تمام ہدایت پر عمل کریں- اور فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کم از کم ایک سال کیلئے بهلا دیں-
اگر یہی اتحاد اگر تین سے پانچ سال تک قائم رہتا ہے تو مذہبی اور سیاسی دوکانداروں کی عوام باآسانی چھٹی کرا دے گی-
فساد پھیلانے والے یا تو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل ہوجائیں گے یا پھر انکا انجام وہی ہوگا جو دہشت گردوں کا ہوتا ہے-
کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں-
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو-
پاکستان زندہ باد-
نوٹ: افغان مہاجرین کا افغانستان انخلا، خیبر پختون خواہ حکومت کا ایک خوش آئند اقدام ہے- چالیس سال سے ہم مستقل مہمان نوازی کر رہے- جبکہ اپنے گھر کے بچوں کیلئے کھانا بھی پورا نہیں پڑ رہا-
جواب میں پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات سمگل کرنے والے افغانی آئے روز مختلف ممالک میں پکڑے جاتے ہیں-


No comments:

Post a Comment