Wednesday, December 24, 2014

افغان مہاجرین کی وطن واپسی، وقت کی اہم ترین ضرورت



افغان مہاجرین کی وطن واپسی، وقت کی اہم ترین ضرورت--------------------------------------تحریر : عمر اقبال
افغانیوں کو اب واپس افغانستان جانا ہوگا-
چالیس سال سے ہماری میزبانیوں کے مزے لے رہے ہیں-
بدلے میں ہمیں کیا دیا؟
کلاشنکوف کلچر
ہماری نوجوان نسل کو ہیروئین اور چرس کا عادی بنایا
اغواء برائے تاوان
خواتین کو ہراساں کرنا
قحبہ گری
اور سب سے بڑهہ کر ‫#‏دہشتگردی‬
جو لوگ مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی بات کرتے ہیں ان کو کان کهول کر سن لینا چاہیے کہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کیلئے جس ملک میں بهی وہ ہجرت کریں، وہاں کے قوانین کا احترام لازم ہے- یہاں آئے روز افغانی باشندے پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات سمگل کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں اور نام پاکستان کا بدنام ہوتا ہے-
Departure of of Afghan immigrants, a must need of the hour--------------------------------------------- written by M.Omer Iqbal
Afghans must leave Pakistan now.
Since 40 years they are enjoying our hospitality.
What they gave Pakistan in return?
AK 47 culture
Drugs like heroin and cocaine
Kids Kidnappings for ransom
Female harresment cases
Prostitution
and the main one is ‪#‎terrorism‬
The people who talk about immigrants rights, must understand that it's the duty of each and every immigrant to respect the laws of residing country. Which Afghans are not following in Pakistan.
They travel on Pakistani passport and smuggle drugs to different countries. Which is a black spot on Pakistan as normally it's assumed that the smuggler is Pakistani.

Monday, December 22, 2014

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟

سوگ تها یا ایک رسم / فارمیلٹی؟------------------------------تحریر عمر اقبال
جون ایلیا نے شاید یہ شعر اسی دن کیلئے کہا تها-
جو دیکهتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں-
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں-
ابهی تھوڑی دیر پہلے ایک دوست کی وال پر بھارتی اداکار راجیش کهنا اور ایک مشہور ہیروئین کی تصویر دیکھ کر دل یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا سانحہ پشاور کے بعد بهی یہ قوم نہیں سنبھلے گی تو کب سنبھلے گی-
امریکہ 14 سال پہلے9/11 ہوا- اس کے بعد ایک بهی دہشت گردی کا بڑا واقعہ نہ ہوسکا، جس میں اتنے بڑے پیمانے کی تباہی ہو-
2002 سپین کے شہر میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر دھماکے ہوئے اڑھائی سو سے زیادہ افراد جان سے گئے-
لندن میں بهی اسی سال دھماکے ہوئے- اور بهاری نقصان ہوا-
پورے یورپ میں کہرام مچ گیا- یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا- تمام یورپی ممالک سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور عہد کیا کہ اپنے ممالک میں دہشتگردی کا ایک واقعہ بهی نہیں ہونے دیں گے- آج تک آپ کو 2001 اور 2002 کے بعد کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا نظر آیا؟
سعودی عرب میں 2003 میں خوفناک دہشت گردی ہوئی-2003 کے بعدسے آج تک وہاں کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوا؟
یہی حال ترکی کا ہے- اور آج ترکی میں سیاحت ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گئی ہے- جیسے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہے-
شاید دہشت گرد ان ممالک میں پچھلے بارہ تیرہ سال سے ستو پی کر سو رہے ہیں- اسلیئے ایسا کچھ نہیں ہورها-
شاید انکے عوام نے بهی ہماری طرح "نری دعاؤں" پر گزارہ کیا اور دہشت گردوں کی بندوقیں خراب ہوگئیں- انکے اسلحے کو زنگ لگ گیا- انکی عوام نے اپنے آپ کو کچھ دن کیلئے غمگین کر کے، اور اپنے پروفائل تصویریں کالی کرکے "سب اچها" کا نعرہ لگا دیا- اور دہشت گرد ڈر گئے-
جی نہیں، ہرگز نہیں،
ان تمام ممالک نے دہشت گردی کے سینکڑوں منصوبے ناکام بنائے ہیں- ان ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سکولوں کالجوں کے نصاب میں اپنے بچوں کو سمجھایا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں-
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان تمام حکومتوں کی زیر نگرانی دہشت گردی سے نمٹنے کی عوامی آگاہی مہم میں، تمام عوام کو دہشتگردوں کے خلاف اپنی اپنی حکومتوں کا ساتھ دیتے دیکها ہے-
حکومتوں نے اپنی عوام کو باقاعدہ تعلیم دی اور اربوں
ڈالر خرچ کیئے-
کیا لبرل دہریئے کیا چرچ کے پادری کیا مسجد کے امام، سب ایک سٹیج پر اکٹھے نظر آئے- کسی نے اپنے پوائنٹ سکورنگ کیلئے دوسرے کو ٹانگ نہیں کھینچی-
اب وطن عزیز پاکستان کی طرف آتے ہیں-
"میں "صدقے" میں "قربان-
میرا "سوہنا" پاکستان-
سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے سے لیکر سانحہ پشاور تک- ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹهے ہیں - لیکن عوام اب بهی سنجیدہ نظر نہیں آتی-
کیونکہ ہمارا وطیرہ ہر سرکار سے گلہ ہے-
ہماری خفیہ پولیس کو بهی باہر کے ممالک سے ٹریننگ کی سخت ضرورت ہے-
جبکہ ایک زمانہ تھا باہر کے ممالک ہم سے ٹریننگ لینے آتے تهے-
کسی اور ملک پر اعتماد نہیں تو برادر ملک سعودی عرب سے ہی کچھ سیکھ لیں- جن کا داخلی ڈھانچہ انتہائی مضبوط ہے اور کوئی پرندہ بهی پر نہیں مار سکتا- سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیئے-
ہماری خفیہ پولیس کے صد سالہ پرانے نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیئے-
جب تک عوامی سطح پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ جاری رہے گا- جب کچھ لوگ ایک جانب دوسرے فرقے یا سیاسی جماعت کو ، اپنی پوائنٹ سکورنگ کیلئے دہشت گرد کہیں گے-
اور دوسرے گروہ والے انکو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں گے- تب تک امن کا قائم ہونا مشکل ہے-
یہ عوام کا کام ہے اب ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ توڑ دیں، توڑ دیں، توڑ دیں- خدارا ختم کریں یہ الزام تراشیاں-
اور بلا تفریق سب ایک ہوکر اس دہشتگردی کا مقابلہ کریں- کیونکہ عوام ہی کسی ریاست کی اصل طاقت ہے-
اگر اب بهی ہم سب اس سوگ کی فارمیلٹی دکها کر اور چند آنسو بہا اپنے اپنے کام میں جت گئے-
اور "سانوں کی" یا "ہمیں اس سے کیا" کی گردانیں الاپتے رہے تو پهر مزید سانحہ پشاور کی طرح اپنی اور اپنے ننھے پهولوں کی گردنیں کٹانے کو تیار ہوجائیں-
شیر شاہ سوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو دہلی تک جانے سے خوفزدہ تها-
اس نے سرحد پر ایک ہندوستانی کسان کو دیکها اور اس سے پوچھا-
"تمہارے ملک ہندوستان میں جنگ ہورہی ہے- اور تم مزے سے کهیت میں ہل چلا رہے ہو؟"
کسان نے کہا- "ہاں جنگ لگی ہوئی ہے- ہندوستان کا بادشاہ جانے اور اسکا دشمن جانے- مجهے تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے- میرا اس جنگ سے کیا تعلق؟ "
شیر شاہ سوری نے فوراً اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم جاری کردیا-
کہ جس قوم میں سب کچھ حاکم کی ذمہ داری سمجھ کر، صرف اپنا سوچنے والے موجود ہوں، اس قوم کو فتح کرنا مشکل نہیں ہوتا-
جس شیر شاہ کی(کابل سے آسام تک) بنائی ہوئی جرنیلی سڑک ( جی ٹی روڈ) اس بات کہ گواہی دے رہی ہے کہ وہ معمولی سا باغی سردار، ایک مدت تک پورے ہندوستان پر قابض رہا-
اپنے اردگرد کوئی بهی مشکوک شخص یا محلے کے نئے کرائے دار وغیرہ کی جانچ پڑتال ضرور کریں-
پنجابی کا ایک مشہور قول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے، کہ اگر آپکو کوئی مشکل درپیش ہے یا کسی دشمن سے خطرہ ہے تو اپنے گاؤں کے لوگوں سے اسکا اظہار کریں-
اور اگر آپکے گاؤں میں کوئی بھی اس بات پر توجہ نہیں دے رہا تو اپنے گهر کی چهت پر چڑھ کر شور مچا دیں سارا گاؤں اکٹھا ہوجائے گا-
کہ بهائی تمہارا مسئلہ کیا ہے-
اور بات بهی سنے گا-
ڈان نیوز کے مطابق امریکا نے کہا ہے کہ وہ اگر ملا عمر اور دیگر طالبان رہنما امریکا کے لیے براہ راست خطرہ نہ بنے تو آئندہ سال دو جنوری کے بعد امریکی فوج افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔
اب آپ خود اس امریکی بیان سے اندازہ لگا لیں- کہ کس طرح ہمیں دہشت گردی میں دھکیل کر خود صلح کرنے جا رہا ہے-
بخدا اس سوگ کو فارمیلٹی یا رسم نہ بنائیں اور دہشتگردی کے خلاف متحد ہوں- ایسے کئی سوگ پہلے بھی منا چکے- اب متحد ہونے کا وقت ہے- اور ہمارا دشمن نہیں چاہتا کہ ایسا ہو-
اپنے صوبے کی حکومت کی دی گئی تمام ہدایت پر عمل کریں- اور فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کم از کم ایک سال کیلئے بهلا دیں-
اگر یہی اتحاد اگر تین سے پانچ سال تک قائم رہتا ہے تو مذہبی اور سیاسی دوکانداروں کی عوام باآسانی چھٹی کرا دے گی-
فساد پھیلانے والے یا تو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل ہوجائیں گے یا پھر انکا انجام وہی ہوگا جو دہشت گردوں کا ہوتا ہے-
کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں-
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو-
پاکستان زندہ باد-
نوٹ: افغان مہاجرین کا افغانستان انخلا، خیبر پختون خواہ حکومت کا ایک خوش آئند اقدام ہے- چالیس سال سے ہم مستقل مہمان نوازی کر رہے- جبکہ اپنے گھر کے بچوں کیلئے کھانا بھی پورا نہیں پڑ رہا-
جواب میں پاکستانی پاسپورٹ پر منشیات سمگل کرنے والے افغانی آئے روز مختلف ممالک میں پکڑے جاتے ہیں-


Thursday, December 18, 2014

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)

یہ دنیا مکافات عمل ہے (حصہ دوئم)------------------------------------------------- تحریر:عمر اقبال
"تاج دین کیا کھانا کھاؤ گے؟"
جیل کے وارڈن نے کوٹھڑی کا آہنی دروازہ کھولا-
تاج دین نجانے کن خیالوں میں گم تھا- اس دفعہ اُس نے وارڈن کا کھڑے ہوکر استقبال تک نہ کیا- بس ایک ہی جانب گھورے جا رہا تھا- انسان جب اللہ تعالیٰ کی یاد میں مگن ہوتا ہے تو اُس کو دُنیا و مافیہا کی پراہ نہیں رہتی- بشرطیکہ یاد سچے دل سے کی جارہی ہو-
یہی کیفیت اسوقت تاج دین کی تھی-
"مجھے کچھ نہیں چاہیے، تُم مہربانی کرو اور مجھے ایک مُصلٰے لا دو- "
وارڈن کے دل میں پہلی بار رحم آگیا- کیونکہ وہ بھی کسی حد تک جانتا تھا کہ تاج دین قاتل نہیں ہے-
"تُم خوفزدہ نہیں ہو اس سزائے موت سے؟جبکہ تم جانتے ہو کہ بے موت مارے جارہے ہو؟" وارڈن نے سوال پوچھا-
"نہیں میں خوفزدہ نہیں، یہ میرے مکافات عمل کی سزا مل رہی ہے- اور میں بہت خوش ہوں کہ دنیا میں ہی سزا پا رہا ہوں-" تاج دین نے بے رغبتی سے روکھا سا جواب دے دیا-
بھر تاج دین نے سارا واقعہ سنا دیا-
وارڈن نے قہقہ لگایا اور بولا- "اسطرح تو کئی درجن لوگ روزانہ جعلی پولیس مقابلوں میں مروا دئیے جاتے ہیں- ہماری اندھی گولیوں سے کئی بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں- ہمارے پیٹی بھائی بھی مجبور ہوتے ہیں- آڈر جو ہوا- لیکن ہمیں آڈر دینے والوں کو تو کوئی سزا نہیں ملتی- ایسا کیوں ہے-"
"سزا ملتی ہے-" تاج دین نے جواب دیا- "انکے محلات کے دیوان اور باغیچے اور قلعہ نُما گھر ہوتے ہیں- باہر تین تین سو تمہارے پیٹی بھائی پہرہ دیتے ہیں- لیکن اُنکے دل میں وہ سکون نہیں ہوتا جو اسوقت میرے دل میں ہے- کوئی بیمار ہے اور کوئی اولاد کی وجہ سے بدنام ہے-
کسی کو درجنوں مقدموں کا سامنا ہے اور کوئی اپنے ہی صفوں کے نااہلوں سے پریشان ہے- میں ایک عام آدمی تھا- جس کا فیصلہ جلدی ہوگیا- اور مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں- لیکن میری روح روز قیامت ان حکمرانوں کا حشر ہوتا ضرور دیکھے گی جو روزانہ کی بنیاد پر پولیس مقابلوں، جلوسوں اور دیگر مواقع پر ہزاروں ماؤں کی گود اجاڑے جاتے ہیں-اُنکو سزا ضرور ملے گی- ضرور ملے گی-" وہ اپنے خیالات میں گُم یہ الفاظ دہراتا چلا گیا- اور اُسکو پتہ بھی نہ چل سکا کہ وارڈن کب چلا گیا تھا- اور وہ اکیلا ہی اپنے آپ سے باتیں کیئے جا رہا تھا-
سارا دن گزر گیا مغرب کا وقت آن پہنچا- تاج دین عبادت میں مگن اپنے گناہوں کی معافی میں مصروف تھا-
کال کوٹھری کا دروازہ پھر سے کھل گیا-
"ملاقاتی آئے ہیں-" باہر نکلو-
پورے دو مہینے کے بعد اس آہنی قبر سے باہر نکلا-
وہ جان بوجھ کر ننگے پیر چل رھا رہا تھا- کیونکہ اس زمین کی آخری ٹھنڈک کو محسوس کرنا چاہتا تھا- جیل کی راہداری سے ہوتا ہوا جب ملاقاتیوں سے ملنے جارھا تھا -شام کی سرد ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوا- اُس نے ایک لمبی سانس لی جیسے سارا ہوا کا جھونکا کھا جائے گا- ہوا کے جھونکے کی تازگی کا احساس اسکو اپنے پھپھڑوں کے آخری خلیئے تک محسوس ہوا-
اُسکی حسرت بھری نگاہ جیل میں اگے ہوئے سرسبز پیڑوں پر پڑی، جو شام کی اداسی کے ساتھ ہوا میں جھوم رہے تھے- اور پھر اُن چڑیوں پر نظر ڈالی جو آزاد فضاؤں میں اُڑ کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کو جارہیں تھیں- ان چڑیوں کو آرام کرکے ایک ایسی صبح میں جاگنا تھا، جو تاج دین کی زندگی کی آخری صبح تھی- ان آزاد چڑیوں کو دیکھ کر تاج دین خوش ہوا-
لیکن اپنے ہاتھوں پر لگی ہتھکڑی دیکھ کر پھر اُداس ہوگیا-
ملاقات کیلئے اُسکے بھائی بہن، بیوی بچے، بچپن کا جگری دوست نورالٰہی اور اُسکا وکیل آیا تھا-
اُسکا دوست اسکے گلے ملا اور کہا-
"تاجے فکر نہ کر- ہم نے رحم کی پھر سے اپیل کریں گے اور یہ دکیل صاحب بھی،،،،،،،،،،،،،"
"بس کر نُورے!!!! بہت بھاگ دوڑ کر لی تم سب نے- جو ہو رہا ہے ہونے دے-"
نور الٰہی بھڑک اُٹھا،"تُو پاگل ہوگیا ہے کیا؟ یہ پھانسی کی سزا ہوئی ہے پھانسی کی- جان چلی جاتی ہے اس میں- اور بندہ واپس نہیں آتا- اسکو کو سمجھاؤ وکیل صاب- یہ پاگل ہوگیا ہے-"
وکیل نے بولنا چاہا لیکن تاج دین نے روک دیا-
بیوی بچوں، بہن بھائیوں کو اندر بلا لیا گیا- بھائی ، بہنیں اس سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے- بیٹیاں الگ سے بے حال تھیں، شریک حیات چادر میں منہ چھپائے آنسو بہا رہی تھی-
تاج دین نے فردا، فردا سب کو دلاسہ دیا- اپنے بھائیوں سے اپنی اولاد کا خیال رکھنے کو کہا- شریک حیات کو بھی تسلی دی –
ملاقات کا وقت ختم ہوگیا- اور تاج دین واپس کال کوٹھری میں آگیا-
"ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا-" وارڈن نے تاج دین کو کہا-
تاج دین حیران رہ گیا اور بس اتنا کہہ سکا- "پولیس والے کی آنکھوں میں آنسو----------؟؟"
"کیوں؟ ہم پولیس والے انسان نہیں؟ ہمارا دل نہیں؟ یہ تو اُن بھیڑیوں کے حُکم کی زنجیر بندھی ہوئی ہے ہمارے پیروں میں- ورنہ ہم لوگ بھی عوام ہیں- اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا-"
"معافی کس بات کی مانگ رہے ہو؟" تاج دین نے سوال داغا-
"معافی میں اس بات کی مانگ رھا ہوں ، کہ تمہارے مکافات عمل کے فلسفے کو سمجھنے میں دیر کردی- اور قہقہہ لگا دیا تھا- بس اُس کی معافی چاہتا ہوں-
میری آنکھوں میں آنسو تمہارے بچوں کو دیکھ کر آگئے- کہ کس طرح بیٹیاں باپ کی محبت میں تڑپ رہیں تھیں اور کس طرح سے ایک بے بس بیوی اپنے شوہر کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہی تھی-
ایک بہن اپنے بھائی کی پھانسی کی خبر سُن کر کس طرح چیخ چیخ کر فریاد کر رہی تھی- اور بھائی بھی چپکے چپکے رو رہے تھے لیکن تمہیں اور بچوںاور خواتین کو تسلیاں دے رہے تھے- ایک طرف بچپن کا دوست بے حس وحرکت بُت بن کر کھڑا تھا- اور اپنے دوست کو موت کے منہ سے بچانے کیلئے آج بھی پُر اُمید تھا-"
تاج دین مسکرا دیا جبکہ وارڈن بولتا جا رہا تھا- شاید یہ کسی آخری انسان سے تاج دین کا طویل مکالمہ تھا-
وارڈن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ- "میرا افسر بھی بہت بڑا رشوت خور تھا- رشوت کی کمائی سے اپنی اولاد کو جوان کیا- بیرون ملک دورے، کمیشن، ٹھیکے سب کاموں میں برابر کا حصے دار تھا- بلا کا ذہین تھا- اسی لیئے ترقی کرتا کرتا کہاں سے کہاں پہنچ گیا- کہنے کو ایک معمولی تھانیدار بھرتی ہوا تھا، اور پھر ایک بڑا افسر بن کر ریٹائر ہوا- وہ جب مرا تو میں بھی اسکے جنازے میں شرکت کیلئے گیا-
افسر کی میت سامنے پڑی تھی اور بیٹے جائیداد کا جھگڑا کر رہے تھے- اور ہم لوگ ان بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ باپ کی میت پہلے قبر میں تو اُتار لو ، پھر یہ جھگڑے کرتے رہنا- لیکن یہ تو ہم بھی، اندر سے جانتے تھے کہ وہ کتنا کرپٹ افسر تھا- پس اُسی دن سے میں نے رشوت سے توبہ کی اور اپنی ڈیوٹی بدلنے کی درخواست کردی- لوگ حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ احمق ترین انسان ہے- زیادہ پیسے سے کم پیسے کی طرف جا رھا ہے- لیکن میں مطمئن تھا- کیونکہ ایک رشوت خور کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا- یہ اُسکی مکافات عمل تھی جس کا عذاب دُنیا سے ہی شُروع ہوگیا تھا-"
وارڈن چلا گیا اور تاج دین کو گہری سوچ میں چھوڑ گیا- وہ سوچ رہا تھا- کہ اُسکا جرم ایک بھینس کے بچے کو مارنا تھا- اور اُس بچے کی مجبور بے کس ماں کی بددعا، اُسے لگ گئی- یقینا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے- اُس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور تخت نشینوں کو اُنکا حساب مل کر رہے گا- چند سکوں کی خاطر ملک وقوم کا سودا کرنے والے کہاں تک وسیع و عریض محلات میں رہیں گے؟
کہنے کو تو جہانگیر بادشاہ اور اسکی بیوی نورجہاں بھی اعلیٰ محلات میں رہتے تھے- دارا اور سکندر کی بھی ان موجودہ حکمرانوں سے ہزار گنا اُونچی شان تھی- آخر میں ان کی قبروں کے نشان تک نا بچے- سب مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے- تاریخ کے صفحات نے انکے خوشامدیوں اور درباریوں کو دو سطریں دینا بھی گورا نہ کیں-یہ تو اپنے آقاؤں کے سامنے جھکتے ہیں- اور اُن بادشاہوں کے ماتحت کتنی سلطنتوں کے بادشاہ تھے، جو اُن کے سامنے جُھکتے تھے-
اگلی صبح تاج دین کو پھانسی ہوگئی- اور اس دن، تاج دین کا نام، اخبار کی ایک چھوٹی سی سرخی کی زینت بنا- اُسکا نام بھی اُسکے مرنے کے بعد اخبار میں آسکا-
وطن عزیز جس ظلم و بربریت کے دور سے گزر رہا ہے- اور جس طرح نا انصافیوں کا دور دورہ ہے-جس طرح سے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا- اور جو کچھ 31اگست کو حکومت کی دہشت گردی کا نمونہ ہم نے دیکھا- یا فیصل آباد میں کالعدم تنطیموں کے کارکنوں سے اور سول وردی میں ملبوس پولیس والوں سے جو قتل عام کروایا گیا- اسکی مثال بہت کم ملتی ہے- قاتل کے ہم شکلوں کو میڈیا کے سامنے بٹھا کر معاملہ رفع دفع نہیں کیا جاسکتا-
مسئلہ صرف چار حلقوں کا تھا- جو اب خود میاں صاحب کے گلے کا حلقہ بن گئے ہیں-
فرعون کو بھی اللہ نے تب تک معاف کیئے رکھا تھا، جب تک وہ انصاف کرتا تھا- حالانکہ خدائی دعوٰی کرنے والا اللہ کے سخت ترین عذاب کی پکڑ میں آتا ہے- پر فرعون کو، اُسکے انصاف کی دجہ ہے ڈھیل ملتی رہی- جو سیدنا موسٰی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ختم ہوگئی اور فرعون غرق ہوا-
موجودہ دور فرعونیت کے تخت نشین ، اس بات کو سمجھنے سے عاری ہیں- کیونکہ جب اللہ کسی کو ذلیل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، تو اُس سے غلطیاں کرواتا ہے-
ریکوڈک کے منصوبے پر کئی عوامی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور 11دسمبر 2014 کو، چُپکے چُپکے جاکر معاہدہ کیا جا رہا ہے- جس میں یہودیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے لایا جا رھا ہے- تحریک انصاف پر یہودی لابی کے الزامات لگانے والے خود اُن یہودیوں کے بُوٹ کی ٹوہ چاٹ رہے ہیں- اور سونے کی کان کنی کے ٹھیکے (بشمول اپنے کمیشن) یہودی کمپنی کو دیئے جا رہے ہیں- ایسی آمرانہ جمہوریت سے ہمیشہ ملک خسارے میں رہے گا- یہ کان کنی کوئی راکٹ سائنس نہیں، پاکستان کے باشندے دُنیا بھر میں اس پیشے سے وانستہ ہیں- ام کو واپس بلا کر اس شعبے میں کھپایا جاسکتا ہے- کتنے ذہین افراد بے روز گار بیٹھے ہوئے ہیں- انکو کو ٹریننگ دے کر ایک باعزت روزگار ریا جاسکتا ہے-
لیکن یہان مُلک کی عوام کی کون "بیوقوف" سوچ رھا ہے- یہاں تو بس اپنی جیبیں بھرنے کی پڑی ہوئی ہے-
پاکستان کی مثال اُس کسان کی سی ہے، جسکو پتا چلتا ہے کہ اُسکے کھیت کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے- اور وہ گاؤں کے ظالم وڈیرے کو اسکی خبر کردیتا ہے- اور وڈیرا اسکی زمین خرید کر اُسکو چند سکے تھما دیتا ہے-
اور کسان خوشی خوشی ناچتا ہوا ، اپنے گھر چلا جاتا ہے-اور اپنے بیوی بچوں سے کہتا، "دیکھو ، دیکھو وڈیرے نے مجھے امداد دی ہے- "
اور معصوم بچے "ابّا زندہ باد!" کے نعرے لگاتے ہیں-
مشکل وقت میں ہمارے حکمرانوں نے اپنا سامان اُٹھانا ہے اور کسی باہر کے مُلک بھاگ جانا ہے- اور ہم عوام اور ہماری نسلیں ان کے قرضے اتارتے اتارتے کمر توڑ بیٹھیں گے-
کہاں تک بھاگیں گے یہ لوگ، کب تک بھاگیں گے- اور کتنا جھوٹ بولیں گے؟
جبکہ قدرت کا فیصلہ آچکا ہے- اور ان کی مکافات عمل شروع ہوچکی ہے-


مامتا(2)-------------------------------------------------------عمر اقبال


مامتا(2)-------------------------------------------------------عمر اقبال
جس وقت دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہوئے تھے- اسوقت انھوں نے فوجیوں کے بچوں کو الگ کرکے شہید کرنا شروع کردیا-
اسی دوران ایک اور ماں ان بچوں کے اور دہشت گردوں کے درمیان حائل ہوگئی-
دہشت گردوں نے اس ماں پر تیل چھڑک کر بچوں کے سامنے آگ لگا دی- 
ماں نے اپنی جان دے دی لیکن اپنے جیتے جی اپنے بیٹوں پر گولی نہیں چلنے دی-
اسی طرح ایک ماں تیس بچوں کو لے ایک کمرے میں چھپ گئی- اسکے اپنے دو بچے باہر ہی رہ گئے- ماں نے اپنے دو بچوں کیلئے ان تیس بچوں کو چھوڑنا گورا نہ کیا- اور بچون کو یہی دلاسے دیتی رہی کہ یہ صرف کوئی ڈرل یا ٹرییننگ کا حصہ ہے-
یہاں تک کہ فوجی آئے اور ان تیس بچوں اور اس عظیم ماں کو باحفاظت باہر نکال کر لے گئے-
وطن کی ان عظیم ماؤں کو وطن کے بیٹوں کا سلام-

مامتا(سانحہ پشاور)---------------------------------------عمر اقبال



مامتا---------------------------------------عمر اقبال
"أو بی بی تو یہاں کیسے آگئی؟ دیکھتی نہیں ہم فوجیوں تک نے بلٹ پروف جیکٹیں پہنی ہیں- آگے گولیاں چل رہیں ہیں-"
مامتا کی ماری مجبور ماں، جب ہر طرف افراتفری کا عالم تها- بے ساختہ بھاگتی بھاگتی اگلے مورچوں تک پہنچ گئی تهی -
پهر فوجی جوان نے بیک سپورٹ پر وائرلیس پیغام بهیجا- "سر ایک عورت نو گو ایریا میں آگئی ہے- کسی جوان کو بهیج کر اسے واپس پیچھے لے جائیں- اوور"
ماں جوانوں نے کہنے لگی- " بهائیو! مجهے آگے جانے دو- میرا بچہ اکیلا ہے- مجهے پکار رها ہوگا-"
جہاں جوان تربیت یافتہ کمانڈوز جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے نبرد آزما تهے- کل وهاں اگلے مورچوں پر ایک نہتی ماں بهی موجود تهی- جو نجانے کیسے اگلے مورچوں تک پہنچ گئی اور مزید آگے جانے پر بار بار اصرار کرتی رہی- 

سانحہ پشاور کے قاتل کون؟ - - - - - - - - - - تحریر: عمر اقبال



سانحہ پشاور کے قاتل کون؟ - - - - - - - - - - تحریر: عمر اقبال
جدهر آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے بھارتی کرنسی ملی-
وہیں 2007 سے 2008 میں طالبان کی شکل میں ہندو گو رکها فائٹرز بهی بهی ملے تهے- جن کے مرنے کے بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں-
اسی طرح چند سال پہلے پشاور کے نواحی قصبے میں ایک ہندو امام مسجد پکڑا گیا تھا-
جو پچھلے بیس سال سے امامت کروا رها تها-
طالبان پر خرچ کرنے والے بهارت اور امریکہ کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستانی قوم سو نہیں رہی-
أن ممالک کیلئے مستقل خطرہ پاک فوج کا ادارہ ہے-
لہٰذا لفافہ لبرل فاشٹ جو آئے روز میڈیا پر فوج کے خلاف بولتے ہیں یا بریف کیسوں والے انتہاء پسند ملا، جن کی اپنی اولادیں لندن امریکہ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں- اور وہ عوام کے معصوم بچوں کو نام نہاد جہاد کیلئے برین واشنگ کرتے ہیں، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں-
کیونکہ دونوں فوج کیخلاف زہر اگلتے ہیں-
سی این این کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق-
۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول پشاور حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔واضح رہے کہ اجیت دوول بھارتی انٹیلی جنس کے افسر ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی کے طور پر 30 مئی 2014 سے اپنی ذمہ داریاں انجام دہ رہے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اپنے کھلے اور خفیہ دشمنوں کی پہچان ہوگئی ہے-
آج طالبان نے عوام کو تمام فوجی سکولوں اور دیگر فوجی تنصیبات سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے-
تم ہوتے کون ہو ہمیں دور یا قریب رہنے کا مشورہ دینے والے؟
ہم جانتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے- تمہاری انتہاء پسند سوچ کی ہمیں ضرورت نہیں-
جس کو تم لوگ ناپاک آرمی کہتے ہو، اصل میں تم لوگ اور تمہارے حمایتی خود نجاسات کا لشکر ہیں-
عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں-

Thursday, December 4, 2014

ہ دنیا مکافات عمل ہے------------------------------------- تحریر: عُمراقبال

یہ دنیا مکافات عمل ہے- ------------------------------------ تحریر عمر اقبال
جیل کی سزائے موت کی کال کوٹھری تهی-
خوفناک سناٹا تها- زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
باہر شاید بارش ہورہی ہے-
اسکے پتھرائے ہوئے دماغ میں خیال گزرا-
کیونکہ بادلوں کی ہلکی ہلکی گرج خوفناک سناٹے کو چیر رہی تھی-
لیکن انکی چمک ، بارش کی ہلکی پھوہار اور ٹھنڈی ہوا کے تازہ ترین جھونکوں سے محروم تها-
آج اسے محسوس ہوا کہ بارش کتنی بڑی نعمت ہے-
کال کوٹھری کا کھانا بهی تو آج رات نہ آسکا-
"کهانا نہیں ملے گا آج ! پتہ نہیں کیا ہوا؟ شاید بارش کی وجہ سے گاڑی دیر سے پہنچے گی-"
جیل کے سنتری نے فولادی دروازے پر لگی چهوٹی سی کھڑکی کهول کر اسے بتا دیا اور کھڑکی بند کر دی-
اسکو کهانا نا ملنے کا کوئی غم نہیں تها- لیکن پانچ دن بعد ایک انسانی آواز جو اس سے مخاطب تهی، اسکے سننے کی خوشی تهی- کیونکہ وارڈن بغیر کچھ کہے کھانا آہنی دروازے کے نیچے سے سرکا دیتا تها-
"بهائی میری بات تو سنو-" وہ تڑپ کر اٹھا- میرے سے دو باتیں تو کرلو-
لیکن کال کوٹھری کا وارڈن کب کا جا چکا تها-
پهر سے بس ایک وہ تها اور وہ کالی قبر تهی-
آنسوؤں کی لڑی نجانے کب سے بہہ رہی تھی- اور رکنے کا نام نہ لیتی تهی-
"یا اللہ! میں سزائے موت کا مجرم کیسے؟" اپنے رب سے اسکا ایک ہی سوال تها-
"میں نے تو تیرے بندوں پر کبهی ظلم نہیں کیا تها-
چونسٹھ سال کی عمر کا کمزور آدمی کیسے اور کس کا قاتل ہوسکتا ہے؟ اے رب ذوالجلال تو جانتا ہے میں بے گناہ ہوں-"
اپنے رب سے باتیں کرتا، نجانے کب نیند کی وادیوں میں کهو گیا-
خواب بهی تو اسکو ڈراونے آرہے تهے-
کبهی اپنے آپ کو تختہ دار پر جھولتے دیکھتا اور کبهی جلاد کو اپنا چہرہ ڈھانپتے دیکهتا-
خواب میں کیا دیکها کہ ہندوستان کی تقسیم ہو رہی ہے-
ہندوؤں کے قافلے بھارت جا رہے ہیں-
اور مسلمان پاکستان آرہے ہیں-
کشت و خون کی لڑائی جاری ہے- لیکن اسکو کوئی پرواہ نہیں-
کڑیل جوان اور مضبوط جسم کا مالک روزانہ گهر سے نکل پڑتا ہے- اور دیکهتا ہے کہ ہندوؤں کی چهوڑی ہوئی کسی چیز کو اچک لے- ایک آواز آتی ہے
" یہ تیری کمائی کے دن تهے- تُوچور جو ٹھہرا اپنے علاقے کا-"
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- یوں محسوس ہورها تها جیسے آواز بہت قریب سے آئی ہے-
وہ واقعی ایک چور تها- لیکن بعد میں چوری سے تائب ہوکر کوئی کام شروع کردیا تھا-
اسکو یاد آیا کہ ایک ہندو قافلہ اپنی بهینس کو ایک درخت سے باندھ کر چھوڑ گیا تها-
کیونکہ بهینس درد زہ کی وجہ سے ، بہت آہستہ چل رہی تهی –اور قافلے والوں کو جان کا خطرہ تھا- اسلئیے بھینس کو چھوڑ گئے-
جب یہ اس درخت تک پہنچا تو بهینس کا بچہ ہوچکا تها- اور چند گھنٹوں کا تها-
اسنے بهینس کی درخت سے رسی کھولی اور چلتا بنا-
بچہ بهی ماں کےساتھ ساتھ ہولیا-
اسنے دیکها کہ بهینس بچے کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی ہے- اور مڑ مڑ کر اسکے ساتھ ملنے کا انتظار کرتی ہے-
چور کو بهینس بیچنے کی جلدی تھی اور بچہ اسمیں رکاوٹ تها- اس نے بندوق نکالی اور بهینس کے بچے پر فائر کر دیا- بچھڑا تڑپ تڑپ کر مرگیا-
بهینس نے آسمان کی جانب سر اٹھایا اور پهر جهکا دیا- چور نے منڈی لے جاکر بهینس کو بیچ دیا- اور سستی سی زرعی زمین لے لی-
کهیتی باڑی سے اس کے دن پهر گئے –
شادی ہوگئی بچے ہوگئے- وقت بہت اچها گزر رها تها کہ اچانک گاءوں کا ایک بااثر آدمی قتل ہوگیا اور الزام اس پر آگیا-
کال کوٹھڑی کا فولادی دروازہ دلخراش چرچراہٹ کے ساتھ کهلا-
اس کی سوچوں کا تسلسل یکایک ٹوٹ گیا-
جیل سپرنٹنڈنٹ اسکی کی کوٹھڑی میں داخل ہوا-
"میاں تاج دین ولد میاں رحمت دین! کل تمہیں فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے، پھانسی دے دی جائے گی- اپنی آخری خواہش بتا دو- آخری کھانا کیا کھانا چاہتے ہو وہ بهی بتا دو- کل تہجد کے وقت وارڈن تمہیں گرم پانی کی بالٹی دے گا-
آخری غسل کرلینا اور وارڈن کو اپنے وارثوں کے نام لکهوا دو جن سے تم آخری ملاقات کرنا چاہتے ہو-"
تاج دین ہکا بکا رہ گیا-
قدرت کے انتقام کی گهڑی آن پہنچی تهی-
اور اسکو اسکے شکوے کا جواب بهی مل گیا تھا-
کہ کس طرح اس نے ایک کمزور بے کس معصوم کی جان لی تهی- اور اسکی دکهی مظلوم ماں کی آہ آج اسے تختہ دار پر لٹکا رہی تھی-
پهر وہی خوفناک سناٹا تھا-
زیرو وولٹ کا بلب گهپ اندھیرے کو تھوڑا سا روشن بنا رها تها-
پانچ بائی پانچ فٹ کا چهوٹا سا خانہ اسکو،قبر سے بهی زیادہ تنگ لگ رہا تھا-
مال روڈ کے نابینا معذوروں کی آہ امراء کے در و دیوان ہلا دینے کیلئے کافی ہے-
قدرت اپنا حساب پورا ضرور کرتی ہے- اس کے هاں دیر ہے- اندھیر نہیں-
کیونکہ یہ دُنیا مکافات عمل ہے-