مامتا!!!!!!
یہ مدز ڈے تو گوروں نے؛ وقت کی کمی کے باعث اور اپنی سہولت کی خاطر ایک ہی دن رکھ دیا ہے۔ مجھ جیسے ڈھیٹ انسان کو گوروں کے معاشرے میں رہ کر بھی انکی روایات کا رنگ نہ چڑھ سکا، آکسفورڈ اور مشی گن کے کورسز مجھے دیسی لبرل بنانے میں ناکام رھے۔
ویسے تو ماں کا احسان؛ انسان ساری زندگی بھر نہیں چُکا سکتا-
کس طرح بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوکر اسکو جنم دیتی ہے۔
جب رات کو بچے کے رونے کی آواز سے اُسکے باپ کے آرام میں خلل پڑتا ہے، تو وہ چُپ چاپ بچے کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
میں نے کہیں پر ایک روایت پڑھی تھی کہ ایک شخص نے اپنی بوڑھی والدہ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر باپیادہ حج کروایا اور یہ سمجھنے لگا کہ اُس نے اپنی ماں کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے- لیکن اُسکو بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے ماں کے احسانات کا بدلہ تو کیا چُکانا-
وہ تو اُس ایک رات کا بدلہ بھی نا چکا سکا، جب رات کو اس نے بستر گیلا کر دیا تھا اور دُوسرا بستر نا ہونے کے باعث اُسکی ماں نے اُسے اپنے والی خشک جگہ پر لٹا کر خُود اسکی والی گیلی جگہ پر ساری رات گزار دی تھی-
کس طرح بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوکر اسکو جنم دیتی ہے۔
جب رات کو بچے کے رونے کی آواز سے اُسکے باپ کے آرام میں خلل پڑتا ہے، تو وہ چُپ چاپ بچے کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
میں نے کہیں پر ایک روایت پڑھی تھی کہ ایک شخص نے اپنی بوڑھی والدہ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر باپیادہ حج کروایا اور یہ سمجھنے لگا کہ اُس نے اپنی ماں کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے- لیکن اُسکو بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے ماں کے احسانات کا بدلہ تو کیا چُکانا-
وہ تو اُس ایک رات کا بدلہ بھی نا چکا سکا، جب رات کو اس نے بستر گیلا کر دیا تھا اور دُوسرا بستر نا ہونے کے باعث اُسکی ماں نے اُسے اپنے والی خشک جگہ پر لٹا کر خُود اسکی والی گیلی جگہ پر ساری رات گزار دی تھی-
جس نے مامتا کو دیکھنا ہے تو وہ سانحہ پشاور کی ماؤں کو دیکھ لے، جن کے بچوں اگر آج زندہ ہوتے تو وہ بھی اپنے راج دُلاروں کو اپنے سینوں سے لگاتیں، اور وہ بھی اپنی ماں کو کوئی اچھا سا تحفہ دیتے-
شاید مامتا کی ماری مائیں آج اپنے بچوں کی قبروں پر جاکر الم و خزن کی تصویر بنی ہوں گی-
شاید مامتا کی ماری مائیں آج اپنے بچوں کی قبروں پر جاکر الم و خزن کی تصویر بنی ہوں گی-
ایک مامتا وہ ہوگی جو کسی اولڈ ایج ہوم میں حسرت و یاس کی تصویر بنی اپنے بیٹوں اور پوتوں کی راہ تک رہی ہوگی-
بد بخت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور انھوں نے اپنی ماؤں کو اولڈ ایج ہومز میں رکھا ہوا ہے- کیونکہ اُنکی بیویوں کے مزاج اُنکی ماں سے نہیں ملتے-
ایسے لوگ جان جائیں کہ یہ دُنیا مکافات عمل ہے- اگر آج وہ لوگ اپنی ماں کا دل دُکھا رہے ہیں، تو کل کو اپنی اولاد کا گلہ ہرگز نہ کیجئے- کہ یہ نافرمان کیوں ہے، ہم نے اسکو بہتر سے بہترین تعلیم دلوائی اور اسکے لیئے بہترین پیشے کا انتحاب کیا-
سانحہ پشاور سے متعلق ایک چھوٹی سی تحریر لکھی تھی-
لکھنا کیا تھا، دو سطریں ہی لکه سکا-
سانحہ پشاور کے دو دن بعد سڑک پر گاڑی چلاتے چلاتے اچانک دماغ سن ہوگیا، گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور مرد ہونے کی بنا پر دو دن کا زبردستی سے روکا ہوا آنسوؤں کا بندھن ٹوٹ گیا-
لکھنا کیا تھا، دو سطریں ہی لکه سکا-
سانحہ پشاور کے دو دن بعد سڑک پر گاڑی چلاتے چلاتے اچانک دماغ سن ہوگیا، گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور مرد ہونے کی بنا پر دو دن کا زبردستی سے روکا ہوا آنسوؤں کا بندھن ٹوٹ گیا-
اُسی دوران ذہن میں اُس خبر کا خیال آگیا جب ایک مامتا کی ماری ماں انتہائی سخت سیکورٹی کے باوجود تمام حصار توڑ کر اگلے مورچوں پر پہنچ گئی-
اس کیفت کو ایک مکالمے کی صورت دے کر اشکوں کی سیاہی سے قرطاس پر تحریر کردیا-
اس کیفت کو ایک مکالمے کی صورت دے کر اشکوں کی سیاہی سے قرطاس پر تحریر کردیا-
ایک بار پھر پیش کر رھا ہوں-
"أو بی بی تو یہاں کیسے آگئی؟ دیکھتی نہیں ہم فوجیوں تک نے بلٹ پروف جیکٹیں پہنی ہیں- آگے گولیاں چل رہیں ہیں-"
مامتا کی ماری مجبور ماں، جب ہر طرف افراتفری کا عالم تها- بے ساختہ بھاگتی بھاگتی اگلے مورچوں تک پہنچ گئی تهی -
پهر فوجی جوان نے بیک سپورٹ پر وائرلیس پیغام بهیجا- "سر ایک عورت نو گو ایریا میں آگئی ہے- کسی جوان کو بهیج کر اسے واپس پیچھے لے جائیں- اوور"
ماں جوانوں نے کہنے لگی- " بهائیو! مجهے آگے جانے دو- میرا بچہ اکیلا ہے- مجهے پکار رها ہوگا-"
جہاں جوان تربیت یافتہ کمانڈوز جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے نبرد آزما تهے- کل وهاں اگلے مورچوں پر ایک نہتی ماں بهی موجود تهی- جو مزید آگے جانے پر بار بار اصرار کرتی رہی۔
مامتا کو دنیا کا کوئی دہشت گرد نہ ہرا سکا۔
مامتا کی ماری مجبور ماں، جب ہر طرف افراتفری کا عالم تها- بے ساختہ بھاگتی بھاگتی اگلے مورچوں تک پہنچ گئی تهی -
پهر فوجی جوان نے بیک سپورٹ پر وائرلیس پیغام بهیجا- "سر ایک عورت نو گو ایریا میں آگئی ہے- کسی جوان کو بهیج کر اسے واپس پیچھے لے جائیں- اوور"
ماں جوانوں نے کہنے لگی- " بهائیو! مجهے آگے جانے دو- میرا بچہ اکیلا ہے- مجهے پکار رها ہوگا-"
جہاں جوان تربیت یافتہ کمانڈوز جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے نبرد آزما تهے- کل وهاں اگلے مورچوں پر ایک نہتی ماں بهی موجود تهی- جو مزید آگے جانے پر بار بار اصرار کرتی رہی۔
مامتا کو دنیا کا کوئی دہشت گرد نہ ہرا سکا۔
ان دو سطروں کے بعد مزید کچھ نا لکھ سکا-
دُنیا کی ہر ماں کی مامتا کو میرا سلام