Tuesday, March 10, 2015

پردہ، حیا اور کنجر خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عمر اقبال-

پردہ، حیا اور کنجر خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عمر اقبال-
پردہ کسی کو آپ کے پاس آنے نہیں دیتا ... اور ... حیا آپ کو کسی کے پاس جانے نہیں دیتی-
لہٰذا زندگی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے، مشکلات اور ٹھوکروں کے ڈر سے پردہ اور حیا کی ضرورت ہرگز نہیں-
اب کوئی مولوی بھائی مجھ پر یہ ‫#‏فتوٰی‬ صادر نہ فرما دیں، کہ عمر اقبال نے ‫#‏پردے‬اور ‫#‏حیا‬ کو ممنوع قرار دے دیا-
ہرگز نہیں- افسوس صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم نے پردے اور حیا کو صرف اپنے جسموں تک محدود کردیا- اور منافقت کا لبادہ اوڑھ کر ہر ناجائز اور غیر اخلاقی کام کو حلال کرنے کیلئے شرم حیا سے منہ موڑ لیا اور پردہ کرلیا-
مثلا میرا عزیز رشتہ دار یا قریبی دوست کسی کرپشن کیس میں پکڑا گیا- اور الزام ثابت بھی ہوگیا- لیکن میں بطور تفتیشی افسر یا بطور جج اس سے "حیا" کرگیا- اور اسکی کرپشن پر پردہ ڈال دیا-
یا میں عرصہ دراز سے ایک بدنام زمانہ ڈان کو گالیاں دیتا چلا آرہا ہوں، پھر اچانک مجھ پر بُرا وقت آن پڑا، تو "مفاہمت" کے نام پر اسی شخص کے گھر جا پہنچا اور صلح کرلی- اور اسکی تمام سیاہ کاریوں پر "پردہ" ڈالنے کا حلف بھی اٹھا لیا- کیونکہ ہم اب ایک ہی حمام کے ننگے ہیں-
ہاں محلے کی مسجد کے مولوی کو بھی کہہ دیا کہ خواتین کے پردہ پر دھواں دار تقریر جاری رکھے اور نوجوانوں کو بھی حیا کا درس دیتا رہے- کیونکہ یہ "شریفوں" کا محلہ ہے- کوئی کنجر خانہ نہیں-

برانڈ، برانڈ اور برانڈ



برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں۔ انکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے کہ میں iPhone اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ McDonald's یا KFC کھاؤں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک Downtown Cafe پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Gucci ,Lacoste, Adidas یا Nike کی چیزیں استعمال کروں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Adele یا Rihanna کو سنوں تو ثابت کر سکوں کہ میں ترقی یافتہ ہو چکا ہوں؟
نہیں!
میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن۔۔۔۔
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری Adidas سے خریدی گئی ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔
میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔
بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں۔ جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے نہ کہ اس کی ظاہری شکل و صورت۔ لوگوں کو پرکھنے کا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے