Friday, January 30, 2015

کتھا بیس روپے کے سکے کی--------------------------- تحریر: عُمر اقبال


ایک دفعہ کا ذکر ہے-
ایک بادشاہ تها- اپنی رعایا سے بڑی محبت جتاتا تھا- لیکن اندر  اندرسے انہی کا خون چوستا تها-
شہر والے بادشاہ کو بہت اچهے طریقے سے جانتے تھے- اور اس سے شدید تنگ تهے-
جبکہ دیہات والوں کو بادشاہ کے دوغلے پن کا اتنا نہیں پتہ تھا-کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے عادی تھے-
ایک دفعہ ایک بهولا بهالا سا دیہاتی شہر میں داخل ہوا-
اسکی جیب میں 20 روپے کے تین سکے تهے-
چالیس روپے آنے جانے کا کرایہ اور باقی بیس روپے سے کوئی کهانے پینے کا سامان لینا تها-
اتفاق سے بس کے سفر کے دوران اسکا بیس روپے کا ایک سکہ بس سےگر گیا-
بہت پریشان ہوا- 
پهر اس نے سوچا کہ بادشاہ جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہتا پهرتا ہے-اس سے جاکر انصاف مانگتا ہوں-فوراً شاہی محل کی جانب دوڑا-
چوب داروں  نے اسکو ایک کلومیٹر کے دائرے سے ہی دھکے مار کر نکال دیا-لیکن دیہاتی بهی اپنی دهن کا پکا تها-کسی نا کسی طرح شاہی پروٹوکول  کو چکمہ دے کر اس نے بادشاہ سلامت کو جا ہی لیا- 👳
سب درباری انتہائی پریشان تهے کہ ایک جاہل گنوار بادشاہ سلامت کے محل کیسے آن پہنچا-بادشاہ سلامت نے آنے کا مدعا پوچھا تو دیہاتی ہاتھ جوڑ کر مخاطب ہوا-
"ظل الہی کا اقبال بلند ہو!
 ہمارے مائی باپ آپ ہیں- بندہ آج اپنے ناپاک قدموں سے آپکی پاک دھرتی میں گھسنے کی جرات کر بیٹها تها- اور ایک بیس روپے کا سکہ گنوا بیٹها ہے-اب بندہ نا تو کوئی فقیر ہے جو کسی سے بهیک مانگے، کیونکہ جدی پشتی اپنے گاؤں کا زمیندار پٹواری ہے- اور نا ہی وہ رقم ڈھونڈ سکتا ہے- اسلیئے آپ کے حضور یہ مدعا عرض کررها ہوں کہ مجهے میرا کھویا ہوا مال دلایا جائے-"
ہر چند بادشاہ کے درباریوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جو بیس روپے کا سکہ گم ہوگیا وہ ملنا بہت مشکل ہے- تم یہ سکہ ہم سے لے لو اور جان چهوڑو-
لیکن دیہاتی اپنی ضد پر اڑا رہا- کہ میں وہی سکہ لوں گا جو گم ہوا ہے-
بادشاہ سلامت کے ذہن میں ایک ترکیب آئی-
فرمانے لگے- "اے دیہاتی انسان! تجهے ہم تیرا کھویا ہوا سکہ ضرور ڈهونڈهہ کر دیں گے- اور آنکھ مار کر،  درباریوں کو حکم دیا کہ پورے شہر میں ہرکارے دوڑائے جائیں- اور جونہی سکہ ملے- لاکر ہمارے حضور پیش کیا جائے-"
دیہاتی خوشی خوشی واپس چلا گیا-
دو دن اپنے بیس روپے کے سکے کی آس میں گزار دیئے-
اگلی صبح جب وہ سر جھکائے،  مایوس ہوکر گاؤں کیلئے پیدل روانہ ہوا تو دھڑام سے ایک گھڑے میں جا گرا- جب باہر نکلا تو اردگرد نظر دوڑائی-
شہر کی بلدیہ ہر جگہ میٹرو بس کے نئے پراجیکٹ کی تیاریوں میں مصروف تهی اور سڑکوں پر کام دهڑا دھڑ جاری تها-
دیہاتی نے آؤ دیکها نا تاؤ-
سیدها شاہی محل جا پہنچا-
شاہی ہرکاروں نے پس و پیش کے بعد اندر جانے دیا- محل میں داخل ہوتے ہی اس نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا-
"بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو- آپ ہزار برس جیئں- بادشاہ سلامت بهی بہت حیران ہوئے کہ ہم نے تو اس بیوقوف کو ٹرخا دیا تها- اور الٹا یہ ہمیں دعائیں دے رہا ہے-"
بادشاہ کے حکم پر دیہاتی کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا گیا اور خوشی کی وجہ جاننے کا کہا گیا-
دیہاتی فخر سے سینہ پهلاتے ہوئے مخاطب ہوا-
"میں واپس گاؤں جارها ہوں- اور اپنے پورے گاؤں کو اکٹها کرکے بتاؤں گا کہ بادشاہ سلامت سے بڑهہ کر نیک دل اور سخی کوئی بهی نہیں-
حضور کا سایہ اپنی رعایا پر قائم و دائم رہے-
جو بادشاہ اپنی سلطنت کے ایک دیہاتی کے بیس روپے کی سکے کی خاطر پورا شہر کھدوا سکتے ہیں، اس بادشاہ کو تاحیات بادشاہی کا حق ہے-
حضور والا! جانے دیجئے- وہ صرف ایک بیس روپے کا سکہ تھا- میرے اس ایک سکے کی خاطر نے آپ نے پورا شہر ادھیڑ کر رکھ دیا- کتنا زیادہ خیال ہے آپکو اپنی رعایا کا-"
پورا محل "بادشاہ سلامت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا-

خبر:
 تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیس روپے کا سکہ مارکیٹ میں دستیاب ہے-

تبصرہ:
افراط زر یا انفلیشن کو فروغ دیتے ہوئے- پاک چین دوستی کے نام پر بیس روپے کا سکہ جاری کرنا، حکومت کی، اپنی نااہلی کو چھپانے کی، ایک ناکام کوشش ہے-



Tuesday, January 27, 2015

بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-

بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-
فرانسیسی اخبار پر حملہ عین اس وقت کیوں ہوا؟
جب فرانس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا تھا-
مذہبی گستاخانہ خاکے تو 2011 میں شائع ہوئے تھے-
اچانک انتقامی کارروائی 2015 میں کیوں یاد آگئی-
فیس بک کے بانی مارک زچربرگ سمیت، پورا یہودی میڈیا اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں ہی کے خلاف سرگرم کیوں؟
ٹیوٹر پر ہیش ٹیگ ‪#‎KillAllMuslims‬ کیوں؟
فرانسیسی تفتیشی پولیس افسران کے ہاتھ چند اہم شواہد لگے تهے-
لیکن اچانک فرانسیسی پولیس کے ایک اعلٰی تفتیشی افسر نے خودکشی کرلی-
یہ بات کم از کم میرے جیسا سادہ سا بندہ ہضم کرنے سے قاصر ہے-
یہ بھول بهلیاں کہاں تک جاتیں ہیں- رب جانتا ہے-


‎بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-

فرانسیسی اخبار پر حملہ عین اس وقت کیوں ہوا؟
 جب فرانس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا تھا-
مذہبی گستاخانہ خاکے تو 2011 میں شائع ہوئے تھے-
اچانک انتقامی کارروائی 2015 میں کیوں یاد آگئی-
فیس بک کے بانی مارک زچربرگ سمیت، پورا یہودی میڈیا اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں ہی کے خلاف سرگرم کیوں؟ 
ٹیوٹر پر ہیش ٹیگ #KillAllMuslims کیوں؟

فرانسیسی تفتیشی پولیس افسران کے ہاتھ چند اہم شواہد لگے تهے-
لیکن اچانک فرانسیسی پولیس کے ایک اعلٰی تفتیشی افسر نے خودکشی کرلی-
یہ بات کم از کم میرے جیسا سادہ سا بندہ ہضم کرنے سے قاصر ہے-
یہ بھول بهلیاں کہاں تک جاتیں ہیں- رب جانتا ہے-‎

اوئے عمرؔ

اوئے عمرؔ!
؎
دوسروں کی کہانیاں چھوڑو-
اپنے سامنے بھی آئینہ رکھو-

پٹرول بحران اور ن-لیگ

بهائی دو قطرے دلوا دیں-
ارے پولیو کے نہیں، پٹرول کے-

کامیاب مرد(خواتین سے معذرت کے ساتھ)


وہ جو کہتے ہیں نا کہ
"ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے-"
.
.
.
.
غلط کہتے ہیں-
کیونکہ عورتیں انتخاب ہی کامیاب مردوں کا کرتی ہیں-
اب دلیل دینے والی خواتین یہ اعتراض اٹھاتی ہیں کہ وہ عورت اسکی ماں بھی ہوسکتی ہے-
انکے لیئے عرض ہے کہ یہ ایک انگریزی محاورہ ہے- اور مغرب میں بیوی کو ماں پر کس طرح فوقیت دی جاتی ہے- یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں-
اور یہ بات غلط نہیں کہ اولاد کی کامیابی کا راز(چاہے بیٹا ہو یا بیٹی) اسکے والدین کی دعاؤں میں پنہاں ہے-

غازی علم دین شہید کی تصویر

ناموس رسالت ﷺ کے محافظ-
غازی علم دین شہید-


بادشاہ کی قبر-

بادشاہ کی قبر-
سعودی عرب میں قبر کو پکا نہیں کیا جا سکتا-
سوائے رسولﷺ کے روضہ مبارک کے مملکت کی تمام قبریں کچی ہیں-
تصویر میں "شاہی قبرستان" یا عود قبرستان، جہاں پر آل سعود کے بادشاہوں، ملکاوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی قبریں موجود ہے- 
تصویر میں خادم الحرمین الشریفین الملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود(رحمتہ اللہ) کی آخری آرام گاہ دکھائی جارہی ہے-
أن کو ان کے والد محترم الملک عبدالعزیز(رحمتہ اللہ) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا-


پاکستانی جذبہ


اس بات کا احساس .اسوقت ہوتا ہے جب یہاں پر پاکستان میں مقیم دوستوں کی درد بهری پوسٹ پڑھنے کو ملتی ہیں-
کبهی بجلی کا رونا کبهی پٹرول کا-
کبهی چینی مہنگی کبهی کوئی نیا سیاسی محاذ-
ٹی وی لگائیں تو ڈکیتی قتل کی خبریں-
اور ایک ہم ہیں جو بیرون ملک بیٹھے بجلی پانی ہر قسم کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں-
اور اپنوں کو روز بلکتا دیکھتے ہیں-
ہمت ہے اور داد کے مستحق ہیں آپ لوگ جو ان مشکل ترین حالات میں بهی ہنسی مذاق بکھیرتے نظر آتے ہیں-
میں اپنی بات کروں گا کہ اگر آپ کی جگہ میں اس بحران سے گزر رہا ہوتا-
تو شاید کئی کئی دن فیس بک پر آتا ہی نا-
پر آسائش زندگی انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے-
اور یہ بهی انسان پر بہت سخت آزمائش ہے-
یہ چاہے مجھ سے ایک سو کلومیٹر دور بیٹها، مسجد الحرم میں عبادت کرتا ظفر جی ہو-
یا جدہ کے ایک کافی لاونج میں بیٹها ہوا عمر اقبال ہو-
دونوں کے دل میں ایک ہی پاکستانیت کا جذبہ ہے کہ وطن عزیز کے یہ بحران کب ختم ہونگے-

بهیڑ کی کھال میں چھپے بهیڑئے-



بهیڑ کی کھال میں چھپے بهیڑئے-
اگر کوئی دیکهنا چاہتا ہے کہ ایک خونخوار دشمن کو بے ضرر سا بنا کر کیسے پیش کیا جاتا ہے-
اور اس سے اظہار محبت کیا جاتا ہے-
تو وہ پاکستانی میڈیا کو دیکھ لے-
آج کا دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن ہے-
جو کے بهارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں-
لیکن میڈیا چائے بنا کر پیش کرنے کا طریقہ کار بتا رہا ہے-

شادی شدہ جوڑے کیلئے مسنون دعا-



آجکل شادیوں کا موسم ہے-
روزانہ پندرہ بیس کلو نکاح سننے کو مل رہے ہیں- tongue emoticon
کسی بهی شادی شدہ جوڑے کو اچهی زندگی کی شروعات کیلئے بہترین مسنون دعا یہ ہے-
جو رسولﷺ فرمایا کرتے تھے-
بَارَكَ اللهُ لَكُم ، وَبَارَكَ عَلَيْكُم ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ -