Thursday, September 10, 2015

ایک کڑوا سچ-
دیکها ہم نے اہل منبر کو،
اسم رسولﷺ کی،
جھوٹی قسمیں اٹهاتے-
اور مے خانے میں مخموروں کو،
یہ مبارک نام سنتے ہی،
ساقی کو جام واپس لوٹاتے-
روحی فدا علٰی رسولﷺ

Tuesday, June 2, 2015

مامتا!!!!!!

مامتا!!!!!!
یہ مدز ڈے تو گوروں نے؛ وقت کی کمی کے باعث اور اپنی سہولت کی خاطر ایک ہی دن رکھ دیا ہے۔ مجھ جیسے ڈھیٹ انسان کو گوروں کے معاشرے میں رہ کر بھی انکی روایات کا رنگ نہ چڑھ سکا، آکسفورڈ اور مشی گن کے کورسز مجھے دیسی لبرل بنانے میں ناکام رھے۔
ویسے تو ماں کا احسان؛ انسان ساری زندگی بھر نہیں چُکا سکتا-
کس طرح بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوکر اسکو جنم دیتی ہے۔
جب رات کو بچے کے رونے کی آواز سے اُسکے باپ کے آرام میں خلل پڑتا ہے، تو وہ چُپ چاپ بچے کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
میں نے کہیں پر ایک روایت پڑھی تھی کہ ایک شخص نے اپنی بوڑھی والدہ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر باپیادہ حج کروایا اور یہ سمجھنے لگا کہ اُس نے اپنی ماں کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے- لیکن اُسکو بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے ماں کے احسانات کا بدلہ تو کیا چُکانا-
وہ تو اُس ایک رات کا بدلہ بھی نا چکا سکا، جب رات کو اس نے بستر گیلا کر دیا تھا اور دُوسرا بستر نا ہونے کے باعث اُسکی ماں نے اُسے اپنے والی خشک جگہ پر لٹا کر خُود اسکی والی گیلی جگہ پر ساری رات گزار دی تھی-
جس نے مامتا کو دیکھنا ہے تو وہ سانحہ پشاور کی ماؤں کو دیکھ لے، جن کے بچوں اگر آج زندہ ہوتے تو وہ بھی اپنے راج دُلاروں کو اپنے سینوں سے لگاتیں، اور وہ بھی اپنی ماں کو کوئی اچھا سا تحفہ دیتے-
شاید مامتا کی ماری مائیں آج اپنے بچوں کی قبروں پر جاکر الم و خزن کی تصویر بنی ہوں گی-
ایک مامتا وہ ہوگی جو کسی اولڈ ایج ہوم میں حسرت و یاس کی تصویر بنی اپنے بیٹوں اور پوتوں کی راہ تک رہی ہوگی-
بد بخت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور انھوں نے اپنی ماؤں کو اولڈ ایج ہومز میں رکھا ہوا ہے- کیونکہ اُنکی بیویوں کے مزاج اُنکی ماں سے نہیں ملتے-
ایسے لوگ جان جائیں کہ یہ دُنیا مکافات عمل ہے- اگر آج وہ لوگ اپنی ماں کا دل دُکھا رہے ہیں، تو کل کو اپنی اولاد کا گلہ ہرگز نہ کیجئے- کہ یہ نافرمان کیوں ہے، ہم نے اسکو بہتر سے بہترین تعلیم دلوائی اور اسکے لیئے بہترین پیشے کا انتحاب کیا-
سانحہ پشاور سے متعلق ایک چھوٹی سی تحریر لکھی تھی-
لکھنا کیا تھا، دو سطریں ہی لکه سکا-
سانحہ پشاور کے دو دن بعد سڑک پر گاڑی چلاتے چلاتے اچانک دماغ سن ہوگیا، گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور مرد ہونے کی بنا پر دو دن کا زبردستی سے روکا ہوا آنسوؤں کا بندھن ٹوٹ گیا-
اُسی دوران ذہن میں اُس خبر کا خیال آگیا جب ایک مامتا کی ماری ماں انتہائی سخت سیکورٹی کے باوجود تمام حصار توڑ کر اگلے مورچوں پر پہنچ گئی-
اس کیفت کو ایک مکالمے کی صورت دے کر اشکوں کی سیاہی سے قرطاس پر تحریر کردیا-
ایک بار پھر پیش کر رھا ہوں-
"أو بی بی تو یہاں کیسے آگئی؟ دیکھتی نہیں ہم فوجیوں تک نے بلٹ پروف جیکٹیں پہنی ہیں- آگے گولیاں چل رہیں ہیں-"
مامتا کی ماری مجبور ماں، جب ہر طرف افراتفری کا عالم تها- بے ساختہ بھاگتی بھاگتی اگلے مورچوں تک پہنچ گئی تهی -
پهر فوجی جوان نے بیک سپورٹ پر وائرلیس پیغام بهیجا- "سر ایک عورت نو گو ایریا میں آگئی ہے- کسی جوان کو بهیج کر اسے واپس پیچھے لے جائیں- اوور"
ماں جوانوں نے کہنے لگی- " بهائیو! مجهے آگے جانے دو- میرا بچہ اکیلا ہے- مجهے پکار رها ہوگا-"
جہاں جوان تربیت یافتہ کمانڈوز جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے نبرد آزما تهے- کل وهاں اگلے مورچوں پر ایک نہتی ماں بهی موجود تهی- جو مزید آگے جانے پر بار بار اصرار کرتی رہی۔
مامتا کو دنیا کا کوئی دہشت گرد نہ ہرا سکا۔
ان دو سطروں کے بعد مزید کچھ نا لکھ سکا-


دُنیا کی ہر ماں کی مامتا کو میرا سلام

Tuesday, March 10, 2015

پردہ، حیا اور کنجر خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عمر اقبال-

پردہ، حیا اور کنجر خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: عمر اقبال-
پردہ کسی کو آپ کے پاس آنے نہیں دیتا ... اور ... حیا آپ کو کسی کے پاس جانے نہیں دیتی-
لہٰذا زندگی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے، مشکلات اور ٹھوکروں کے ڈر سے پردہ اور حیا کی ضرورت ہرگز نہیں-
اب کوئی مولوی بھائی مجھ پر یہ ‫#‏فتوٰی‬ صادر نہ فرما دیں، کہ عمر اقبال نے ‫#‏پردے‬اور ‫#‏حیا‬ کو ممنوع قرار دے دیا-
ہرگز نہیں- افسوس صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم نے پردے اور حیا کو صرف اپنے جسموں تک محدود کردیا- اور منافقت کا لبادہ اوڑھ کر ہر ناجائز اور غیر اخلاقی کام کو حلال کرنے کیلئے شرم حیا سے منہ موڑ لیا اور پردہ کرلیا-
مثلا میرا عزیز رشتہ دار یا قریبی دوست کسی کرپشن کیس میں پکڑا گیا- اور الزام ثابت بھی ہوگیا- لیکن میں بطور تفتیشی افسر یا بطور جج اس سے "حیا" کرگیا- اور اسکی کرپشن پر پردہ ڈال دیا-
یا میں عرصہ دراز سے ایک بدنام زمانہ ڈان کو گالیاں دیتا چلا آرہا ہوں، پھر اچانک مجھ پر بُرا وقت آن پڑا، تو "مفاہمت" کے نام پر اسی شخص کے گھر جا پہنچا اور صلح کرلی- اور اسکی تمام سیاہ کاریوں پر "پردہ" ڈالنے کا حلف بھی اٹھا لیا- کیونکہ ہم اب ایک ہی حمام کے ننگے ہیں-
ہاں محلے کی مسجد کے مولوی کو بھی کہہ دیا کہ خواتین کے پردہ پر دھواں دار تقریر جاری رکھے اور نوجوانوں کو بھی حیا کا درس دیتا رہے- کیونکہ یہ "شریفوں" کا محلہ ہے- کوئی کنجر خانہ نہیں-

برانڈ، برانڈ اور برانڈ



برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں۔ انکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے کہ میں iPhone اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ McDonald's یا KFC کھاؤں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک Downtown Cafe پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Gucci ,Lacoste, Adidas یا Nike کی چیزیں استعمال کروں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Adele یا Rihanna کو سنوں تو ثابت کر سکوں کہ میں ترقی یافتہ ہو چکا ہوں؟
نہیں!
میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن۔۔۔۔
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری Adidas سے خریدی گئی ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔
میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔
بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں۔ جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے نہ کہ اس کی ظاہری شکل و صورت۔ لوگوں کو پرکھنے کا طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے

Friday, January 30, 2015

کتھا بیس روپے کے سکے کی--------------------------- تحریر: عُمر اقبال


ایک دفعہ کا ذکر ہے-
ایک بادشاہ تها- اپنی رعایا سے بڑی محبت جتاتا تھا- لیکن اندر  اندرسے انہی کا خون چوستا تها-
شہر والے بادشاہ کو بہت اچهے طریقے سے جانتے تھے- اور اس سے شدید تنگ تهے-
جبکہ دیہات والوں کو بادشاہ کے دوغلے پن کا اتنا نہیں پتہ تھا-کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے عادی تھے-
ایک دفعہ ایک بهولا بهالا سا دیہاتی شہر میں داخل ہوا-
اسکی جیب میں 20 روپے کے تین سکے تهے-
چالیس روپے آنے جانے کا کرایہ اور باقی بیس روپے سے کوئی کهانے پینے کا سامان لینا تها-
اتفاق سے بس کے سفر کے دوران اسکا بیس روپے کا ایک سکہ بس سےگر گیا-
بہت پریشان ہوا- 
پهر اس نے سوچا کہ بادشاہ جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہتا پهرتا ہے-اس سے جاکر انصاف مانگتا ہوں-فوراً شاہی محل کی جانب دوڑا-
چوب داروں  نے اسکو ایک کلومیٹر کے دائرے سے ہی دھکے مار کر نکال دیا-لیکن دیہاتی بهی اپنی دهن کا پکا تها-کسی نا کسی طرح شاہی پروٹوکول  کو چکمہ دے کر اس نے بادشاہ سلامت کو جا ہی لیا- 👳
سب درباری انتہائی پریشان تهے کہ ایک جاہل گنوار بادشاہ سلامت کے محل کیسے آن پہنچا-بادشاہ سلامت نے آنے کا مدعا پوچھا تو دیہاتی ہاتھ جوڑ کر مخاطب ہوا-
"ظل الہی کا اقبال بلند ہو!
 ہمارے مائی باپ آپ ہیں- بندہ آج اپنے ناپاک قدموں سے آپکی پاک دھرتی میں گھسنے کی جرات کر بیٹها تها- اور ایک بیس روپے کا سکہ گنوا بیٹها ہے-اب بندہ نا تو کوئی فقیر ہے جو کسی سے بهیک مانگے، کیونکہ جدی پشتی اپنے گاؤں کا زمیندار پٹواری ہے- اور نا ہی وہ رقم ڈھونڈ سکتا ہے- اسلیئے آپ کے حضور یہ مدعا عرض کررها ہوں کہ مجهے میرا کھویا ہوا مال دلایا جائے-"
ہر چند بادشاہ کے درباریوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جو بیس روپے کا سکہ گم ہوگیا وہ ملنا بہت مشکل ہے- تم یہ سکہ ہم سے لے لو اور جان چهوڑو-
لیکن دیہاتی اپنی ضد پر اڑا رہا- کہ میں وہی سکہ لوں گا جو گم ہوا ہے-
بادشاہ سلامت کے ذہن میں ایک ترکیب آئی-
فرمانے لگے- "اے دیہاتی انسان! تجهے ہم تیرا کھویا ہوا سکہ ضرور ڈهونڈهہ کر دیں گے- اور آنکھ مار کر،  درباریوں کو حکم دیا کہ پورے شہر میں ہرکارے دوڑائے جائیں- اور جونہی سکہ ملے- لاکر ہمارے حضور پیش کیا جائے-"
دیہاتی خوشی خوشی واپس چلا گیا-
دو دن اپنے بیس روپے کے سکے کی آس میں گزار دیئے-
اگلی صبح جب وہ سر جھکائے،  مایوس ہوکر گاؤں کیلئے پیدل روانہ ہوا تو دھڑام سے ایک گھڑے میں جا گرا- جب باہر نکلا تو اردگرد نظر دوڑائی-
شہر کی بلدیہ ہر جگہ میٹرو بس کے نئے پراجیکٹ کی تیاریوں میں مصروف تهی اور سڑکوں پر کام دهڑا دھڑ جاری تها-
دیہاتی نے آؤ دیکها نا تاؤ-
سیدها شاہی محل جا پہنچا-
شاہی ہرکاروں نے پس و پیش کے بعد اندر جانے دیا- محل میں داخل ہوتے ہی اس نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا-
"بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو- آپ ہزار برس جیئں- بادشاہ سلامت بهی بہت حیران ہوئے کہ ہم نے تو اس بیوقوف کو ٹرخا دیا تها- اور الٹا یہ ہمیں دعائیں دے رہا ہے-"
بادشاہ کے حکم پر دیہاتی کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا گیا اور خوشی کی وجہ جاننے کا کہا گیا-
دیہاتی فخر سے سینہ پهلاتے ہوئے مخاطب ہوا-
"میں واپس گاؤں جارها ہوں- اور اپنے پورے گاؤں کو اکٹها کرکے بتاؤں گا کہ بادشاہ سلامت سے بڑهہ کر نیک دل اور سخی کوئی بهی نہیں-
حضور کا سایہ اپنی رعایا پر قائم و دائم رہے-
جو بادشاہ اپنی سلطنت کے ایک دیہاتی کے بیس روپے کی سکے کی خاطر پورا شہر کھدوا سکتے ہیں، اس بادشاہ کو تاحیات بادشاہی کا حق ہے-
حضور والا! جانے دیجئے- وہ صرف ایک بیس روپے کا سکہ تھا- میرے اس ایک سکے کی خاطر نے آپ نے پورا شہر ادھیڑ کر رکھ دیا- کتنا زیادہ خیال ہے آپکو اپنی رعایا کا-"
پورا محل "بادشاہ سلامت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا-

خبر:
 تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیس روپے کا سکہ مارکیٹ میں دستیاب ہے-

تبصرہ:
افراط زر یا انفلیشن کو فروغ دیتے ہوئے- پاک چین دوستی کے نام پر بیس روپے کا سکہ جاری کرنا، حکومت کی، اپنی نااہلی کو چھپانے کی، ایک ناکام کوشش ہے-



Tuesday, January 27, 2015

بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-

بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-
فرانسیسی اخبار پر حملہ عین اس وقت کیوں ہوا؟
جب فرانس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا تھا-
مذہبی گستاخانہ خاکے تو 2011 میں شائع ہوئے تھے-
اچانک انتقامی کارروائی 2015 میں کیوں یاد آگئی-
فیس بک کے بانی مارک زچربرگ سمیت، پورا یہودی میڈیا اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں ہی کے خلاف سرگرم کیوں؟
ٹیوٹر پر ہیش ٹیگ ‪#‎KillAllMuslims‬ کیوں؟
فرانسیسی تفتیشی پولیس افسران کے ہاتھ چند اہم شواہد لگے تهے-
لیکن اچانک فرانسیسی پولیس کے ایک اعلٰی تفتیشی افسر نے خودکشی کرلی-
یہ بات کم از کم میرے جیسا سادہ سا بندہ ہضم کرنے سے قاصر ہے-
یہ بھول بهلیاں کہاں تک جاتیں ہیں- رب جانتا ہے-


‎بهول بهلیاں.......................... تحریر : عمر اقبال-

فرانسیسی اخبار پر حملہ عین اس وقت کیوں ہوا؟
 جب فرانس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا تھا-
مذہبی گستاخانہ خاکے تو 2011 میں شائع ہوئے تھے-
اچانک انتقامی کارروائی 2015 میں کیوں یاد آگئی-
فیس بک کے بانی مارک زچربرگ سمیت، پورا یہودی میڈیا اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں ہی کے خلاف سرگرم کیوں؟ 
ٹیوٹر پر ہیش ٹیگ #KillAllMuslims کیوں؟

فرانسیسی تفتیشی پولیس افسران کے ہاتھ چند اہم شواہد لگے تهے-
لیکن اچانک فرانسیسی پولیس کے ایک اعلٰی تفتیشی افسر نے خودکشی کرلی-
یہ بات کم از کم میرے جیسا سادہ سا بندہ ہضم کرنے سے قاصر ہے-
یہ بھول بهلیاں کہاں تک جاتیں ہیں- رب جانتا ہے-‎

اوئے عمرؔ

اوئے عمرؔ!
؎
دوسروں کی کہانیاں چھوڑو-
اپنے سامنے بھی آئینہ رکھو-

پٹرول بحران اور ن-لیگ

بهائی دو قطرے دلوا دیں-
ارے پولیو کے نہیں، پٹرول کے-

کامیاب مرد(خواتین سے معذرت کے ساتھ)


وہ جو کہتے ہیں نا کہ
"ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے-"
.
.
.
.
غلط کہتے ہیں-
کیونکہ عورتیں انتخاب ہی کامیاب مردوں کا کرتی ہیں-
اب دلیل دینے والی خواتین یہ اعتراض اٹھاتی ہیں کہ وہ عورت اسکی ماں بھی ہوسکتی ہے-
انکے لیئے عرض ہے کہ یہ ایک انگریزی محاورہ ہے- اور مغرب میں بیوی کو ماں پر کس طرح فوقیت دی جاتی ہے- یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں-
اور یہ بات غلط نہیں کہ اولاد کی کامیابی کا راز(چاہے بیٹا ہو یا بیٹی) اسکے والدین کی دعاؤں میں پنہاں ہے-

غازی علم دین شہید کی تصویر

ناموس رسالت ﷺ کے محافظ-
غازی علم دین شہید-


بادشاہ کی قبر-

بادشاہ کی قبر-
سعودی عرب میں قبر کو پکا نہیں کیا جا سکتا-
سوائے رسولﷺ کے روضہ مبارک کے مملکت کی تمام قبریں کچی ہیں-
تصویر میں "شاہی قبرستان" یا عود قبرستان، جہاں پر آل سعود کے بادشاہوں، ملکاوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی قبریں موجود ہے- 
تصویر میں خادم الحرمین الشریفین الملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود(رحمتہ اللہ) کی آخری آرام گاہ دکھائی جارہی ہے-
أن کو ان کے والد محترم الملک عبدالعزیز(رحمتہ اللہ) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا-


پاکستانی جذبہ


اس بات کا احساس .اسوقت ہوتا ہے جب یہاں پر پاکستان میں مقیم دوستوں کی درد بهری پوسٹ پڑھنے کو ملتی ہیں-
کبهی بجلی کا رونا کبهی پٹرول کا-
کبهی چینی مہنگی کبهی کوئی نیا سیاسی محاذ-
ٹی وی لگائیں تو ڈکیتی قتل کی خبریں-
اور ایک ہم ہیں جو بیرون ملک بیٹھے بجلی پانی ہر قسم کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں-
اور اپنوں کو روز بلکتا دیکھتے ہیں-
ہمت ہے اور داد کے مستحق ہیں آپ لوگ جو ان مشکل ترین حالات میں بهی ہنسی مذاق بکھیرتے نظر آتے ہیں-
میں اپنی بات کروں گا کہ اگر آپ کی جگہ میں اس بحران سے گزر رہا ہوتا-
تو شاید کئی کئی دن فیس بک پر آتا ہی نا-
پر آسائش زندگی انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے-
اور یہ بهی انسان پر بہت سخت آزمائش ہے-
یہ چاہے مجھ سے ایک سو کلومیٹر دور بیٹها، مسجد الحرم میں عبادت کرتا ظفر جی ہو-
یا جدہ کے ایک کافی لاونج میں بیٹها ہوا عمر اقبال ہو-
دونوں کے دل میں ایک ہی پاکستانیت کا جذبہ ہے کہ وطن عزیز کے یہ بحران کب ختم ہونگے-

بهیڑ کی کھال میں چھپے بهیڑئے-



بهیڑ کی کھال میں چھپے بهیڑئے-
اگر کوئی دیکهنا چاہتا ہے کہ ایک خونخوار دشمن کو بے ضرر سا بنا کر کیسے پیش کیا جاتا ہے-
اور اس سے اظہار محبت کیا جاتا ہے-
تو وہ پاکستانی میڈیا کو دیکھ لے-
آج کا دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن ہے-
جو کے بهارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں-
لیکن میڈیا چائے بنا کر پیش کرنے کا طریقہ کار بتا رہا ہے-

شادی شدہ جوڑے کیلئے مسنون دعا-



آجکل شادیوں کا موسم ہے-
روزانہ پندرہ بیس کلو نکاح سننے کو مل رہے ہیں- tongue emoticon
کسی بهی شادی شدہ جوڑے کو اچهی زندگی کی شروعات کیلئے بہترین مسنون دعا یہ ہے-
جو رسولﷺ فرمایا کرتے تھے-
بَارَكَ اللهُ لَكُم ، وَبَارَكَ عَلَيْكُم ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ -