ایک دفعہ کا ذکر ہے-
ایک بادشاہ تها- اپنی رعایا سے بڑی محبت جتاتا تھا- لیکن اندر اندرسے انہی
کا خون چوستا تها-
شہر والے بادشاہ کو بہت اچهے طریقے سے جانتے تھے- اور اس سے شدید تنگ تهے-
جبکہ دیہات والوں کو بادشاہ کے دوغلے پن کا اتنا نہیں پتہ تھا-کیونکہ لوڈ شیڈنگ کے عادی تھے-
ایک دفعہ ایک بهولا بهالا سا دیہاتی شہر میں داخل ہوا-
اسکی جیب میں 20 روپے کے تین سکے تهے-
چالیس
روپے آنے جانے کا کرایہ اور باقی بیس روپے سے کوئی کهانے پینے
کا سامان لینا تها-
اتفاق سے بس کے سفر کے دوران اسکا بیس روپے کا ایک سکہ بس سےگر
گیا-
بہت پریشان ہوا-
پهر اس نے سوچا کہ بادشاہ جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہتا پهرتا
ہے-اس سے جاکر انصاف مانگتا ہوں-فوراً شاہی محل کی جانب دوڑا-
چوب داروں نے اسکو ایک
کلومیٹر کے دائرے سے ہی دھکے مار کر نکال دیا-لیکن دیہاتی بهی اپنی دهن کا پکا
تها-کسی نا کسی طرح شاہی پروٹوکول کو چکمہ دے کر اس نے بادشاہ سلامت کو جا
ہی لیا- 👳
سب درباری انتہائی پریشان تهے کہ ایک جاہل گنوار بادشاہ سلامت
کے محل کیسے آن پہنچا-بادشاہ سلامت نے آنے کا مدعا پوچھا تو دیہاتی ہاتھ جوڑ کر
مخاطب ہوا-
"ظل الہی کا اقبال بلند ہو!
ہمارے مائی باپ آپ ہیں- بندہ آج اپنے ناپاک قدموں سے
آپکی پاک دھرتی میں گھسنے کی جرات کر بیٹها تها- اور ایک بیس روپے کا سکہ گنوا
بیٹها ہے-اب بندہ نا تو کوئی فقیر ہے جو کسی سے بهیک مانگے، کیونکہ جدی پشتی اپنے
گاؤں کا زمیندار پٹواری ہے- اور نا ہی وہ رقم ڈھونڈ سکتا ہے- اسلیئے آپ کے حضور یہ
مدعا عرض کررها ہوں کہ مجهے میرا کھویا ہوا مال دلایا جائے-"
ہر چند بادشاہ کے درباریوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جو بیس
روپے کا سکہ گم ہوگیا وہ ملنا بہت مشکل ہے- تم یہ سکہ ہم سے لے لو اور جان چهوڑو-
لیکن دیہاتی اپنی ضد پر اڑا رہا- کہ میں وہی سکہ لوں گا جو گم
ہوا ہے-
بادشاہ سلامت کے ذہن میں ایک ترکیب آئی-
فرمانے لگے- "اے دیہاتی انسان! تجهے ہم تیرا کھویا ہوا
سکہ ضرور ڈهونڈهہ کر دیں گے- اور آنکھ مار کر،
درباریوں کو حکم دیا کہ پورے شہر میں ہرکارے دوڑائے جائیں- اور جونہی سکہ
ملے- لاکر ہمارے حضور پیش کیا جائے-"
دیہاتی خوشی خوشی واپس چلا گیا-
دو دن اپنے بیس روپے کے سکے کی آس میں گزار دیئے-
اگلی صبح جب وہ سر جھکائے،
مایوس ہوکر گاؤں کیلئے پیدل روانہ ہوا تو دھڑام سے ایک گھڑے میں جا گرا- جب
باہر نکلا تو اردگرد نظر دوڑائی-
شہر کی بلدیہ ہر جگہ میٹرو بس کے نئے پراجیکٹ کی تیاریوں میں
مصروف تهی اور سڑکوں پر کام دهڑا دھڑ جاری تها-
دیہاتی نے آؤ دیکها نا تاؤ-
سیدها شاہی محل جا پہنچا-
شاہی ہرکاروں نے پس و پیش کے بعد اندر جانے دیا- محل میں داخل
ہوتے ہی اس نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا-
"بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو- آپ ہزار برس جیئں- بادشاہ
سلامت بهی بہت حیران ہوئے کہ ہم نے تو اس بیوقوف کو ٹرخا دیا تها- اور الٹا یہ
ہمیں دعائیں دے رہا ہے-"
بادشاہ کے حکم پر دیہاتی کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا گیا اور
خوشی کی وجہ جاننے کا کہا گیا-
دیہاتی فخر سے سینہ پهلاتے ہوئے مخاطب ہوا-
"میں واپس گاؤں جارها ہوں- اور اپنے پورے گاؤں کو اکٹها کرکے
بتاؤں گا کہ بادشاہ سلامت سے بڑهہ کر نیک دل اور سخی کوئی بهی نہیں-
حضور کا سایہ
اپنی رعایا پر قائم و دائم رہے-
جو بادشاہ
اپنی سلطنت کے ایک دیہاتی کے بیس روپے کی سکے کی خاطر پورا شہر کھدوا سکتے ہیں، اس
بادشاہ کو تاحیات بادشاہی کا حق ہے-
حضور والا!
جانے دیجئے- وہ صرف ایک بیس روپے کا سکہ تھا- میرے اس ایک سکے کی خاطر نے آپ نے
پورا شہر ادھیڑ کر رکھ دیا- کتنا زیادہ خیال ہے آپکو اپنی رعایا کا-"
پورا محل "بادشاہ سلامت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا-
خبر:
تازہ ترین اطلاعات کے
مطابق بیس روپے کا سکہ مارکیٹ میں دستیاب ہے-
تبصرہ:
افراط
زر یا انفلیشن کو فروغ دیتے
ہوئے- پاک چین دوستی کے نام پر بیس روپے کا سکہ جاری کرنا، حکومت کی، اپنی نااہلی
کو چھپانے کی، ایک ناکام کوشش ہے-